اوایل ایکس، دو نوجوانوں کا مشترکہ ایڈونچر کیسے پروان چڑھا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد

او ایل ایکس کیا ہے؟ اس کا جواب ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ایک ایسی آن لائن مارکیٹ ہے جہاں کروڑوں افراد اپنی اشیا فروخت کررہے ہیں اور کروڑ ہا افراد اس مارکیٹ میں گھومتے پھرتے ہیں، اپنی ضرورت کی اشیا خریدتے ہیں۔ اس منفرد مارکیٹ کے منتظمین ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اس کا مالک ایک جنوبی افریقن میڈیا و ٹیکنالوجی گروپ ہے۔ اس وقت یہ مارکیٹ پینتالیس ممالک میں قائم ہے۔ آج سے محض بارہ برس قبل یعنی دوہزار چھ میں قائم ہونے والی کمپنی پاکستان، برازیل، انڈیا، پرتگال،بلغاریہ، پولینڈ اور یوکرائن سمیت دنیا کے پینتیس ممالک میں سب سے بڑی آن لائن کلاسیفائیڈ کمپنی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ جبکہ باقی ممالک میں اس کا نمبر دوسرایا تیسرا ہے۔ سن دوہزاردس میں جنوی افریقی کمپنی نے اس کے حصص کا اکثریتی حصہ خرید لیا، پھر دو ہزار چودہ میں مجموعی طور پر پچانوے فیصد حصص اس کے تھے۔ آج یہ او ایل ایکس اس قدر مقبول آن لائن مارکیٹ بن چکی ہے کہ ہر کوئی بیچ دو، بیچ دو کی آوازیں لگارہاہے۔
او ایل ایکس آن لائن ایکسپریس کا مخفف ہے، یہ دو افراد فیبریس گرندا اور ایلک آکسنفورڈ کی مشترکہ کوشش تھی، فیبریس بتیس برس کے تھے جب انھوں نے اوایل ایس کا پودا لگایا جو چند مہینوں میں تناور اور گنا درخت بن گیا۔ ان دونوں پارٹنرز کے پیش نظر بنیادی طور پر امریکی کلاسیفائیڈ اشتہارات کا آئیڈیا تھا، وہ او ایل ایکس کے ذریعے ان کلاسیفائیڈ اشتہارات کو امریکا سے باہر کی دنیا میں پیش کرنا چاہتے تھے۔
فیبریس فرانس میں پیدا ہواتھا، وہیں پلا بڑھا،پھر اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے امریکی ریاست نیوجرسی میں قائم پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں معاشیات کی تعلیم حاصل کی۔ انیس سو چھیانوے میں گریجویشن کی،اوراپنی یونیورسٹی سے مختلف اعزازات حاصل کئے۔
فیبریس گرندا ابھی پرنسٹن یونیورسٹی کا طالب علم ہی تھا کہ اس نے پرنسٹن انٹرنیشنل کمپیوٹرز کے نام سے ایک فرم قائم کی ، اس کے تحت وہ امریکا سے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل کمپیوٹرز اور ان کا سامان یورپی ممالک میں بھیجتا تھا۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد، انیس سو چھیانوے میں اس نے ایک ملٹی نیشنل فرم میک کنزے میں کنسلٹنٹ کے طور پر ملازمت شروع کردی۔ دو سال بعد انیس سو اٹھانوے میں وہ فرانس واپس چلاگیا، جہاں اس نے کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر آک لینڈ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی، یہ یورپ کی تین بڑی آکشن ویب سائٹوں میں سے ایک تھی۔ چند ماہ کی محنت کے نتیجے میں یہ کمپنی اس قدر کامیاب ہوئی کہ فیبریس نے کمپنی کے اکاون فیصد حصص کے بدلے میں ایک امیرترین فرانسیسی بزنس مین برناڈ آرنلٹ سے ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالر حاصل کئے۔یہ انیس سو نناوے کی بات ہے، اگلے ہی برس اس نے ساری کی ساری کمپنی اسی فرانسیسی بزنس مین کو بیچ دی، یادرہے کہ برنالڈ آرنلڈ دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ہے۔
اس کے بعد فیبریس گرندا پھرامریکا چلاگیا، جہاں اس نے زنگے کے نام سے موبائل میڈیا کمپنی قائم کی اور اس کے ذریعے اپنا بنک بیلنس بیس کروڑ ڈالرز تک لے گیا۔پاکستانی روپوں میں اس رقم کو بدلا جائے تو یہ ساڑھے چوبیس ارب روپے بنتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والے یہ بات پڑھ کر محض دانتوں تلے انگلیاں ہی نہیں دبائیں گے بلکہ ہمت اورحوصلہ پکڑیں گے اور کچھ کرکے دکھائیں گے۔ سن دوہزارچارمیں فیبریس نے زنگے آٹھ کروڑ ڈالرزکے بدلے میں ایک جاپانی کمپنی فورسائیڈ کو فروخت کردی۔ وہ دوہزار پانچ تک زنگے کا سی ای او رہا۔ اس کے بعد شروع ہوتی ہے او ایل ایکس کی کہانی۔ اب آگے بڑھنے سے پہلے ایلک آکسنفورڈ کی بابت بھی کچھ جان لیں جو اوایل ایکس قائم کرنے میں فیبریس گرندا کا ساتھی تھا۔
ایلک آکسنفورڈ کا تعلق ارجنٹائن سے تھا، اپنے ہی ملک میں رہ کر اس نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بی اے کیا، پھرہارورڈ یونی ورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ اس کے بعد وہ بوسٹن کنسلٹنگ گروپ میں ملازمت کرتا رہا، پھر اس نے ڈی ری میٹ ڈاٹ کام کے نام سے آن لائن ٹریڈنگ کمپنی قائم کی جو لاطینی امریکا ہی میں کاروبار کرتی تھی۔ ایلک آکسنفورڈ اس کمپنی کا سی ای او تھا۔ اس نے کمپنی ای بے کو بیچ دی۔ یادرہے کہ ای بے امریکا میں قائم ہونے والی ایک ملٹی نیشنل ای کامرس کارپوریشن ہے۔ ایلک نے کمپنی کیسے قائم کی اور پھر ای بے کو کیسے فروخت کی، یہ ایک نہایت دلچسپ قصہ ہے جو پیٹرایرس مین نے اپنی کتاب سکس بلین شاپرز، دی کمپنیز وننگ دی ای کامرس بوم میں لکھا ہے۔ بعدازاں ایلک DineroMail.com قائم کرنے والوں میں بھی شامل ہوگیا۔ یہ کامیاب ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک تھا۔ دوہزار پندرہ میں انویسٹوپیڈیا نے ایلک آکسنفورڈ کو لاطینی امریکا کے پانچ سب سے کامیاب کاروباری افراد میں شمار کیا۔
اب شروع ہوتی ہے او ایل ایکس کی کہانی۔ فیبریس گرندا اور ایلک آکسنفورڈ کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے ایک ایسی فری کلاسیفائیڈ ویب سائٹ بنانے کا منصوبہ بنایا جو دنیا کی سب سے بڑی کلاسیفائیڈ کمپنی ہو۔ ان کا خواب دنوں، ہفتوں میں شرمندہ تعبیر ہوا۔ یہ ایک منفرد آئیڈیا تھاجس نے اس وقت تک دنیا بھر کے پینتالیس ممالک میں اپنا نیٹ ورک قائم کرلیا ہے، اس وقت دنیا بھر کے تینتیس کروڑ لوگ اس پلیٹ فارم پر بیٹھ کر اپنا سامان بیچ رہے ہیں۔
سن دوہزار گیارہ کے بعد بھارتیوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ او ایل ایکس کا استعمال شروع کردیا، سن دوہزار تیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ساٹھ فیصد کلاسیفائیڈ اشتہارات بھارتی اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق او ایل ایکس کے استعمال کنندگان میں سے اسی فیصد موبائل فون پر اس کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ کمپنی اس قدر مقبول ہوچکی ہے کہ زبان میں فعل کے طور پر او ایل ایکس استعمال ہونے لگا ہے، مثلا لوگ کہتے ہیں کہ بھائی! اسے اوایل ایکس کردو نا۔ بھارت میں او ایل ایکس پر فروخت ہونے والا نوے فیصد سامان استعمال شدہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ سابقہ سطور میں بیان ہوچکا ہے کہ سن دوہزار دس میں ایک جنوبی افریقن کمپنی نے او ایل ایکس کو خرید لیا۔ کتنے میں خریدا ؟ اس کا صحیح جواب کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ بیچنے اور خریدنے والوں میں سے کسی نے بھی یہ ڈیل کسی پر ظاہر نہ ہونے دی۔ بعض لوگوں کا اندازہ ہے کہ دو سے چار کروڑ ڈالرز میں سودا ہوا تھا۔ فیبریس گرندا سن دوہزار تیرہ تک جبکہ ایلک آکسنفورڈ سن دوہزارچودہ تک اس کمپنی کے سی ای او رہے۔
فیبریس گرندا کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی جان لیں کہ وہ اس وقت چوالیس برس کا ہے لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ وہ اپنازیادہ تر وقت رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ گزارتاہے۔ اس نے سن دوہزار بارہ میں نیویارک میں اپنی بیس ایکڑ اراضی فروخت کی، اسی طرح مین ہنٹن میں واقع اپنا اپارٹمنٹ بھی فروخت کیا،ساتھ ذاتی کار بھی بیچ ڈالی اوران سے حاصل ہونے والی آمدن خیراتی اداروں کو دیدی۔ اب اس کی اپنی کوئی جائیداد نہیں تھی، کوئی گھر نہیں تھا جہاں وہ رہائش اختیار کرتا، حتی کہ اپنی کوئی گاڑی بھی نہ تھی۔ چنانچہ پہلے اس نےرشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں رہنا شروع کردیا، لیکن پھر رشتہ دار اور دوست احباب اس سے تنگ آنے لگے تو اس نے کرایہ پر رہنا شروع کردیا۔ دوہزار پندرہ میں اس نے دوبارہ ایک گھر نیویارک شہر میں خریدا۔ اس وقت اس کی ذاتی ملکیت میں پچین چیزیں ہیں۔ اس وقت اس کا ذریعہ روزگار مختلف کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری ہے، اسی طرح وہ بزنس انسائیڈر نامی ویب سائٹ پر بلاگ بھی لکھتا ہے جبکہ وہ موٹی ویشنل سپیکر بھی ہے، لوگوں کو کاروبار کرنے اور دولت کمانے کے گر بتاتا ہے۔
اوایل ایکس کے بڑھتے ہوئے استعمال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پلیٹ فارم کی بدولت بھارت میں دوہزار پندرہ میں سینتالیس کروڑ ڈالرز مالیت کی پچانوے ہزار کاریں فروخت ہوئی تھیں جبکہ دوہزار سولہ میں ارب ڈالرز مالیت کی دو لاکھ کاریں فروخت ہوئیں۔ دنیا کے باقی چوالیس ممالک میں بھی اوایل ایکس کی مقبولیت اسی طرح بڑھ رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں