شہر اور شکاری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بشریٰ نواز۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل سے ذرا پرے کچھ دور چٹانوں کا چھوٹا سا سلسلہ تھا۔ شاید یہ کبهی سمندر کا حصہ رہی ہوں مگر اب یہاں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ بڑی چٹان سے نیچے دو جھگیاں چھوڑ کے تیسری جھگی سکینہ کی تھی جہاں وہ اپنے بوڑھے سسر، تین بچوں اور اپنے شوہر جلال کے ساتھ رہتی تھی۔

وہ صبح اٹھتی چاۓ بناتی اتنی دیر میں جلال بھی جاگ جاتا ، سب کو چاۓ روٹی دے کر وہ دونوں بیٹوں کا ہاتھ مونھ دھلاتی ۔ گھنگریالے بال ہونے کی وجہ سے وہ خوب چیختے۔ سسر بھی کبھی کہتا سکینہ تو کیوں بچوں کو تنگ کرتی ہے صبح صبح لیکن سکینہ نے کبھی نا سنی سسر کی بات۔ جلال بیٹوں کو ساتھ لے کر کاندھوں پہ جا ل ڈالے سمندر کی طرف چل پڑتا۔
سکینہ ان کے جانے کے بعد با ڑا صاف کرتی، برتن دھوتی، پھر بیٹی کو سنوار نے میں لگ جاتی۔ اس کا دل چاہتا کہ میری بیٹی کے بال بالکل سیدھے ہوں، گال سفید ھوں بالکل شہر سے آئی ہوئی اس گلابی فراک والی لڑکی جیسی۔ اسے اب بھی اچھی طرح یاد تھا جب وہ گلابی فراک والی کی ہم عمر تھی، کچھ لوگ شہر سے گھومنے ساحل پہ آئے تھے، وہ ساحل پہ ریت سے گھر بنارہی۔ تھی۔

جب ہی کچھ بچے اس کے قریب آ گئے، “اوہ گاڈ دیکھو، اس کے بال جیسے جھاڑی ہو”۔ دوسری بولی:” دیکھو کتنی کالی بھی ہے” باقی تمام بچے ہنسنے لگے۔
“اس کے کپڑے کتنے گندے ہیں” ۔ اس نے ایک نظر ان سب پہ ڈالی اور پھر گھروندا بنانے میں ایسے مصروف ہوئی جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔
“لگتا ہے بول نہیں سکتی، گونگی ہے شاید” وہ سب ہنستے رہے یہاں تک کہ وہ سب واپس چلے گئے ۔

“بابا! مجھے بھی شہر لے جائو نا، میں بھی شہر دیکھوں گی” اور بابا ہر بار ہنس کے ٹال دیتا۔ ماہی گیروں کی کوئی عورت کبھی شہر نہیں گئی تھی، مرد جاتے تھے مچھلی بیچنے یا کوئی ضرورت کا سامان لینے۔

جب اس کی شادی ہوگئی تو اس نے جلال سے بھی کتنی بار فرمائش کی لیکن اس نے بھی کبهی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ وہ جب بھی گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی، بیٹی کوخوب بنا سنوار کے ساحل کی طرف چلی جاتی۔ شام کو دور سے شہر کی بتیاں دیکھ کے وہ سوچتی، نجانے شہر کیسا ہوتا ہے۔ وہ شہر کے بارے میں تو نہ جان سکی لیکن اس کی سب سے بڑی خواہش اگر کوئی پوچھتا تو وہ شہر دیکھنا ہی تھا۔ اس کی اس خواہش کے بارے میں سب ہی جانتے تھے لیکن جلال یا سسر نے پروا کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ اور تو کوئی نہیں مگر اللہ‎وسایا جیسا جانور اس کی تمنا کو بھانپ گیا تھا ۔ اب وہ اسے اکثر ساحل پے ملنے لگا۔ ایک دن وہ اس کی بیٹی کے لیے سیدھے بالوں گورے گالوں والی گڑیا لے آیا۔

وہ آج بھی ساحل پہ بیٹھی سمندر کی موجوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے گڑیا بچی کو تھمائی، جیسے شکاری اڑتے پکھیروں کو دانا ڈالتے ہیں اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ “نہیں چاہئے، واپس لو” اس نے گڑیا بیٹی کے ہاتھ سے چھین کے اللہ‎ وسایا کو واپس کرنا چاہی۔
“رہنے دے اس کے پاس، میں کیا کروں گا اس کے لیے ہی لایا تھا میں شہر سے، وہاں اور بھی بہت کچھ ملتا ہے،بڑی بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے گھر ہیں، تو دیکھے توحیران ہو جاۓ”۔

“اگر شہر اتنا ہی اچھا ہے تو یہاں آتے ہی کیوں ہو؟” سکینہ بولی۔”میں تو ہمیشہ وہاں رہ جاؤں”۔
“میں تو یہاں تیری وجہ سے آتا ہوں” شکاری نے رسی کچھ اور کھینچ لی۔” شہر دیکھے گی، آ تجھے شہر دیکھادوں” بچپن کی خواہش جو اب حسرت میں بدل گئی تھی، خواہش کی صورت سامنے آ گئی شکاری کی۔ پوری گرفت تھی ڈور پہ۔

صبح جب جلال اپنا جال اٹھاۓ بیٹوں کو ساتھ لیے گھر سے نکلا تو تھوڑی دیر بعد سکینہ بیٹی کا ہاتھ پکڑے وہاں آ گئی جہاں اللہ‎ وسایا کی لانچ کھڑی تھی۔ گڑیا بچی کے ہاتھ میں تھی۔ وہ ریت پہ اس کا گھر بنانے میں مصروف ہو گئی اور سکینہ کے قدم۔لانچ کی طرف۔ لالو نے ماں کی طرف دیکھا، سکینہ نے اپنے دوپٹے سے چہرہ چھپالیا، لالو ماں کی طرف دیکھتی۔ رہی لیکن سکینہ لانچ میں بیٹھ چکی تھی۔ اللہ‎ وسایا اسے شہر لے آیا، اسے خوب گھمایا اور بڑے گھر میں بھی لے گیا۔

سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان کی لانچ واپسی کا سفر کرچکی تھی۔ سکینہ گم صم تھی ،جیسے شہر دیکھ کے بھی اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ وہ خود سے بھی شرمندہ تھی، اس نے ایسا نہیں سوچا تھاجیسے ہوا۔ سارا راستہ خاموشی میں کٹا، جب وہ ساحل پہ اتری تو بھی لالو ریت پہ گڑیا کو ساتھ سلا کے سوئی ہوئی تھی۔ وہ جلدی سے اتری اور لالو کو گھسیٹی ہوئی جھونپڑی کی طرف آ گئی۔

سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کے گئی تھی، بس وہ پہلے جیسی نہ تھی۔ اس نے دوپٹہ ایک طرف رکھا اور جلدی سے کھانا بنانے لگی۔ پھرجلال اور بیٹے بھی آ گئے، سکینہ کا دل ہی نہیں کیا کھانا کھانے کو۔

دن بھر کا تھکا ہوا جلال اور بیٹے جلدی ہی سو گئے، اس نے لالو کو اپنے ساتھ لگانا چاہا،لالو پیچھے ہٹ گئی۔ اس رات گرج کے بارش ہوئی۔ وہ تیزی سے با ہر آئی بارش نے ایک لمحے میں اسے بھگو دیا مگر وہ رکی نہیں، وہ سمندر کے قریب پہنچی ایک لمحے کو خوف زدہ ہوگئی، یہ وہ سمندر نہیں تھا جسے وہ بچپن سے جانتی تھی۔ یہاں تو ہر سمت پانی ہی پانی تھا، سمجھ نہیں آتی تھی کہ سمندر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم، شہر کی تمام روشنیاں بھی بجھی ہوئی تھیں۔ کیا خبر وہ شہر ڈوب گیا ہو کیوں کہ وہاں ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔

اگر شہرڈوب جاتا ہے تو اس کے جرم کے سارے نشان مٹ جاتے ہیں،اس نے سوچا۔ اورخود کو ملامت کرنے لگی۔ مہربان سمندر نے کہا اگر تو فیصلہ نہیں کرپا رہی تو آؤ میں تمہیں اپنی آغوش میں لے لوں۔ اگلے ہی لمحے ایک لہر آئی اور اسے اس کے گنہگار وجود کے ساتھ بہا لے گئی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں