بیگم کلثوم نوازمشرف کے خلاف میدان میں نہ نکلتیں تو کیا ہوتا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تین بار پاکستان کی خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نوازشریف اپنے شوہر کی وزارت اعلیٰ سے پہلی اور دوسری وزارت عظمیٰ تک مسلسل سیاست کے میدان سے دور رہیں، ان کی سیاسی زندگی کا پہلا دن تھا جب 12اکتوبر1999ء کو اُس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کا تختہ الٹنے کے ساتھ ہی بیگم کلثوم نواز کو حراست میں لے لیا گیا تھا، انھیں فوری طور پر ان کی رہائش گاہ پر نظربند کردیا گیا تھا۔ وہ عجب آزمائش کا شکار تھیں، شوہر اور بیٹے حراست میں لئے جاچکے تھے، اس خاتون کی اپنی والدہ علیل تھیں، گھر میں صرف وہ، چھوٹی بیٹی اسماء، ایک بہن اور بھانجی تھیں۔ اس حالت میں انھوں نے اپنی والدہ کو بڑی بہن کے ہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن نظربند کرنے والے فوجی اہلکاروں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر بیگم کلثوم نے ایسا فیصلہ کیا جس نے بہت سوں کو انگشت بدنداں کردیا۔
بیگم کلثوم نواز نے اپنی زندگی کے اُس سیاسی باب کو کتاب’جبراور جمہوریت‘ کی شکل دی، جس میں انھوں نے ان صعوبتوں کا ذکر کیا جس کا انھیں سامنا رہا:’’میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر میجر سے کہا:’’ نہ صرف یہ ( امی اور بڑی بہن) بلکہ میں بھی جائوں گی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی نہیں رہ سکتی۔ میں اپنی ساس اور سسر کے پاس رائے ونڈ جائوں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں‘‘۔ میجر نے کہا کہ آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے، میں نے میجر سے کہا کہ تم روک سکتے ہو تو روک لو۔ گولیاں چلانا چاہتے ہوتو شوق پورا کرلو… میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا ہے ۔ مجھے یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگاہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔ میں نے اپنے اور بیٹی کے کپڑے اور چند ضروری چیزیں گاڑی میں رکھوائیں اور دوملازموں کے ساتھ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب کہ میری بڑی بہن والدہ کے ساتھ پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پھر میں نے میجر سے کہا:’’میں جارہی ہوں‘‘۔ گاڑی چل پڑی اور میجر خاموشی سے دیکھتا رہا، اسے گیٹ بند کرانے کی جرات نہ ہوئی‘‘۔
بیگم کلثوم لکھتی ہیں:’’ جب نظربندی کا خاتمہ ہوا تو بہت جلد میرے علم میں آٰیا کہ وہ لوگ جو میاں صاحب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے اور زمین وآسمان کے قلابے ملاتے تھے، طوطاچشم ہوچکے ہیں۔ ابھی جمہوریت پر تلوارچلے ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ کچھ اپنوں کے ایسے بیانات آنے شروع ہوگئے کہ جیسے وہ مدتوں سے ان حالات کے متمنی تھے… وہ پرویزمشرف کے سامنے نمبر بنانے کی دوڑ میں صاف نظر آرہے تھے… انھوں نے آمریت سے مفاہمت کی خواہش کا اظہار کرناشروع کردیاتھا‘‘۔
پرویزمشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں بیگم کلثوم نواز کو باربار پابندیوں کاسامنا رہا لیکن وہ نہایت ہوشیاری سے ان پابندیوں کو ناکام بناتی رہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ لکھتے ہوئے وہ بتاتی ہیں:’’15اکتوبر کو مجلس تحفظ پاکستان کا اجتماع شاہدرہ (لاہور) میں منعقد کرنے کا پروگرام تھا مگرمیرے ماڈل ٹائون سے نکلنے پر پہرے لگادئیے گئے تھے۔ میں پہلے تو وہاں پر ہی میں مختلف لوگوں سے اس معاملے پر بحث کرتی رہی مگر جب انھوں نے میری ایک نہ سنی تو ان کو گفتگو میں مصروف چھوڑ کرگھر کے اندرونی حصے میں چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد گاڑی کی پچھلی نشست پر جابیٹھی اور اپنے سر کو نسبتاً جھکالیا۔ ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی سٹارٹ کرے۔ خداکا کرنا ایسا ہوا کہ جب وہ چلنے لگا توایک آفیسر نے اس سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا کہ بیگم صاحبہ نے کچھ اشیامنگوائی ہیں۔ وہ آفیسر مجھے دیکھ ہی نہ سکا اور بھرے لہجے میں کہنے لگا کہ اچھاجائو اور اس طرح میں ماڈل ٹائون سے باہر نکل گئی مگر شاید میرے نکلنے کے فوراً بعد ماڈل ٹائون میں ان لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ میں نکلنے میں کامیاب ہوچکی ہوں چنانچہ انھوں نے میری شاہدرہ میں متوقع آمد کے پیش نظر جمع کارکنوں کو بیدردی سے پیٹنا شروع کردیا اور زبردست تشدد کرکے ہمارے پروگرام کو طاقت کے بل بوتے پر منعقد نہ ہونے دیا‘‘۔
انیس سو ننانوے سے 2002ء تک کی اپنی سیاسی جدوجہد کے بارے میں بیگم کلثوم نواز نے لکھا کہ میں نے اپنے تئیں ہرقسم کے حالات کامقابلہ کیا، اپنی فہم وفراست سے سامنا کیا اور صرف میں نہیں بلکہ اس وقت پوری دنیا کے مدبر اور سرکردہ سفارت کار بھی کہہ رہے ہیں اور عالمی میڈیا میں بھی یہ تاثر عام طور پر اجاگر کیاجارہاہے کہ پاکستان خدانخواستہ داخلی کشمکش کے بھنور سے نکلنے کی بجائے غالباً جنگ وجارحیت کا نشانہ بننے کے علاوہ خانہ جنگی کابھی شکار ہوسکتاہے۔ میں نے خودساختہ فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف کو یہی نوشتہ دیوار پڑھانے کی کوشش کی۔ ملک کے تحفظ کا ایک نکاتی ایجنڈا، قادیانی انقلاب(یادرہے کہ بیگم کلثوم نواز 12اکتوبر1999ء کے فوجی انقلاب کو قادیانی انقلاب سمجھتی اور قراردیتی تھیں) کے خاتمے اور وسیع تر قومی مفادکے لئے عوامی اور جمہوری قوتوں کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا، اسے قومی یکجہتی کا مشترکہ ایجنڈا کہا‘‘۔

میاں نوازشریف نے حراست کے دوران ہی میں اپنی اہلیہ کو پاکستان مسلم لیگ ن کا صدر مقررکردیا اور پھر ان کی بیٹی مریم نواز کہتی ہیں کہ بیگم کلثوم نواز نے اس وقت غاصب کو لکارا جب بہت سے مرد میدان چھوڑ گئے تھے۔ بیگم کلثوم نواز اس عہدے پر 2002ء تک فائز رہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کے تین برسوں کے دوران میں متعدد بار کہا کہ وہ سیاست میں نہیں آناچاہتی تھیں، وہ تو حالات کی وجہ سے یہاں آئی ہیں اور جونہی ملک اور جمہوریت کے مصائب وآلام ختم ہوئے ، وہ واپس اپنے گھر چلی جائیں گی اور پھر ایسا ہوا، جب انھوں نے اپنا سیاسی ہدف حاصل کرلیا تو وہ گھرچلی گئیں اور جاویدہاشمی کو پارٹی کی باگ ڈور تھمادی گئی۔
وہ لکھتی ہیں:’’ میں نے پورے عزم، حوصلے اور استقلال کے ساتھ اپنی تقریروں میں اس بات کو تسلسل کے ساتھ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ قومی جرم اور خیانت پر کبھی کسی کو ہرگزمعاف نہیں کیاجاسکتا جبکہ ذاتی جرم اور زیادتی کو اسلام کے جذبہ ترحم کے تحت معاف کیاجاسکتاہے۔ سقوطہ ڈھاکہ ایک اجتماعی قومی جرم تھا، اسی طرح کارگل، دراس اور بٹالک سیکٹر کی اصل حقیقت کو چھپانا بھی ایک قومی جرم ہے جسے بالکل معاف نہیں کیاجاسکتا۔1857ء کی تحریک آزادی اور1940ء کی تحریک پاکستان کے مقاصد کی ہم آہنگی کو ختم کرنا، قادیانی سازش اور یہودوہنود کی پالیسی کا حصہ ہے‘‘۔
بیگم کلثوم نواز سمجھتی تھیں کہ میاں محمد نوازشریف کو(1999ء میں) اسلامی نظام کے نفاذ سے روکنے کے لئے شبخون مار کر جیل میں ڈالاگیا کیونکہ اگرجمہوریت ختم نہ کی جاتی تو مارچ2000ء میں قرآن وسنت مملکت کا سپریم لاء بن چکے ہوتے مگرلادینی قوتوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ وہ کس قسم کی خیالات اور نظریات کی مالکہ تھیں، اس کا اظہار ان کی ایک تقریر سے ہوتاہے جس میں انھوں نے اس وقت کی پرویزمشرف حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا:’’ میں یہاں خودساختہ حکومت کے ایجنڈے کی وضاحت کرتی ہوں کہ ان کے نزدیک بنیاد پرست وہ ہے جس نے چہرے پر داڑھی رکھی ہوئی ہو، پانچ وقت کا نمازی ہو، جو زندگی کے ہرمعاملہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو اپنے سامنے رکھ کر فیصلے کرتاہو، جو جذبہ جہاد سے سرشار ہو، قرآن جس کا منشور ہوا ور جہاد جس کی منزل ہو۔ اگراس کا نام بنیاد پرستی ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہر پیدا ہونے والا مسلمان بنیاد پرست ہے۔ اگراللہ کے سامنے سربسجود رہنے کا نام بنیاد پرستی ہے تو میں سب سے بڑی بنیاد پرست ہوں۔ یاد رکھو اگرتمھیں تحریک پاکستان کے مطالعہ کا وقت ملے ، وقت تو ضرور ملے گا، اس کے بعد تم فارغ ہی ہو، نظریہ پاکستان سے لے کر وجود پاکستان تک تمھیں اپنے ہیروبنیاد پرست ہی ملیں گے۔
جنرل صاحب! آپ نے جس عسکری زندگی میں آنکھ کھولی اس کا ماٹو بھی ’ایمان ، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے اور یہ ایک سچے مسلمان کی اپنے اللہ کے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔(انھوں نے جنرل مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) پتہ نہیں کہ پچھلے27 سال کمٹمنٹ کس کے ساتھ رہی اور آج کمٹمنٹ کس کے ساتھ نبھا رہے ہیں؟ یاد رکھو! تمھاری حکومت دینی مدارس، جہادی تنظیموں اور تبلیغی مراکز کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، نہ تو تم نمرود سے زیادہ پاورفل ہو، اور نہ تمھارے فرعون جتنی طاقت ہے کہ تم ایک حکم پر اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کروالو گے بلکہ تم تو خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہو‘‘۔
تمام تجزیہ نگار اور ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ بیگم صاحبہ نے اس مشکل دور میں پوری بہادری کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا حتیٰ کہ جنرل پرویزمشرف کو ادراک ہوگیا کہ شریف خاندان کو قیدوبند میں رکھنا ان کے لئے خطرناک ثابت ہوگا چنانچہ پھر وہ واقعہ پیش آیا جسے ’ ڈیل‘ یا ’جدہ روانگی‘ کا عنوان دیاجاتاہے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں میں میاں نوازشریف کی حکومت ختم ہوتے ہی پارٹی کے حالات کو تفصیلاً بیان کیاکہ کس طرح پارٹی رہنما بے وفائی کی راہ پر چل پڑے۔ اس کے بعد انھوں نے باقی ماندہ پارٹی کے ساتھ دیگر جماعتوں سے رابطے شروع کئے ، انھیں جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس میں انھیں بہت زیادہ کامیابی نصیب نہ ہوئی البتہ ن لیگ کو سیاسی میدان میں زندہ رکھنا ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کا ہر کوئی اعتراف کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ء کے عام انتخابات سے قبل میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف وطن واپس آئے اور ان انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ایک بڑی پارٹی کے طور پر اپنا وجود منوایا جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ سوچئے! بیگم کلثوم نواز 1999ء کے بعد میدان میں نہ نکلتیں، جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کے خلاف جدوجہد نہ کرتیں تو کیا آنے والے برسوں میں مسلم لیگ ن کا کوئی نام لیوا بھی ہوتا!!
بیگم کلثوم نواز کی سیاسی زندگی کا آخری معرکہ لاہور کے حلقہ این اے 120 کا ضمنی انتخاب تھا جس میں وہ کامیاب ہوئیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت کلثوم نواز کوما میں تھیں جب کہ نواز شریف اور مریم نواز بھی لندن میں ہی موجود تھے۔ مسلم لیگ ن کے بدترین مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز ایک دلیر اورمتین خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین بھی ان کے انتقال پر غم زدہ ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں