فوج کو آپریشن کے دوران پتہ نہیں چلتا کہ دشمن کون ہے اور کون نہیں: وزیراعظم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

وزیراعظم عمران خان نے قبائلی علاقوں میں ترجیحی بنیاد پر ترقیاتی کام کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب حکومت سنبھالی تو قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے تاہم اب مشکل وقت سے اس حد تک نکل چکے ہیں کہ سر پانی سے اوپر آگیا ہے۔

پشاور میں قبائلی اضلاع کے عوام میں صحت انصاف کارڈ کی تقسیم سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران نے کہا کہ ‘غریب گھرانے کے لیے سب سے بڑی مشکل ایک بیماری ہوتی ہے کیونکہ بیماری کے علاج میں ان کا سارا بجٹ ختم ہوجاتا ہے’۔

صحت کارڈ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘خیبرپختونخوا (کے پی) میں ہمارے پچھلے دور میں صحت کارڈ کا تجربہ بہت اچھا رہا تھا اور ہمارا ارادہ تھا کہ جب ہمارے پاس آئے تو سب سے پہلے قبائلی عوام میں یہ صحت کارڈ دینا ہے جس میں 7 لاکھ 20 ہزار ایک گھرانے کے لیے ہوگا اور مشکل وقت میں وہ قبائلی علاقے سے باہر بھی کسی بھی ہسپتال میں جا کر اپنا علاج کراسکتے ہیں’۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘گورنر کے پی، وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری، آئی جی نعیم خان کے ساتھ قبائلی علاقوں کی مدد کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا اور پورا منصوبہ بنایا لیکن دیر اس لیے لگی کہ ا کہ ایک دم حکومت آئی اور اتنے مسائل میں گھرے ہوئے تھے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہم قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ کا کرم ہے ہم کم ازکم اس مشکل وقت سے نکل آئے ہیں پوری طرح تو نہیں نکلے لیکن سر پانی سے اوپر آگیا ہے’۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘اب جس طرح کے حالات ہیں اور سعودی ولی عہد کا جو دورہ ہے وہ کسی بھی سعودی عرب یا کسی بھی سربراہ کا اتنا بڑا دورہ نہیں ہے جہاں اتنی بڑی سرمایہ کاری ہوگی، لوگوں کے لیے روزگار ہوگا اور عوام میں سرمایہ کاری سے دولت میں اضافہ ہوگا کیونکہ جب دولت بڑھے گی تو ہم قرضے واپس کریں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اس مہینے کے آخر میں غربت کم کرنے کے لیے مکمل منصوبہ لے کر آرہے ہیں، صحت کارڈ اس کا ایک حصہ ہے، پاکستان میں کبھی بھی اس طرح کا پروگرام نہیں آیا جس کا اعلان کروں گا جس میں غربت کو کم کرنے والے ادارے ایک ہی سربراہ کی سربراہی میں مل کر کام کریں گے’۔

قبائلی علاقوں کو غربت کے خاتمے کے پروگرام سے فائدہ پہنچانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ پروگرام جب آئے گا تو اسے سب سے پہلے قبائلی علاقوں میں لے کر جائیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘قبائلی علاقوں میں ہمارا پروگرام صرف غربت کے خاتمے کا نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی کام کریں گے اور اس کے لیے مرکز سے فنڈ جاری کررہے ہیں’۔

عمران خان نے کہا کہ ‘قبائلی علاقوں میں ہمیں اسکول، ہسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز بنانے ہیں اور ہمارے وزرا نے دورے کیے ہیں اس لیے ہمیں معلوم ہے کہ ترقیاتی کام کہاں کرنے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یقین دلاتا ہوں قبائلی علاقے کے لوگوں پر جو مشکلات پڑی ہیں، اس کا سب سے زیادہ احساس تحریک انصاف کو تھا کیونکہ میں بار بار کہتا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ہمیں ملٹری آپریشن نہیں کرنے چاہیئں اور مجبوراً جو کیے گئے مجھے پتہ تھا کہ جو نقصانات ہوں گے تو لوگوں پر مشکلات آئیں گی’۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘جب بھی کہیں بھی ملٹری آپریشن ہوتے ہیں تو عام آدمی کو مشکل وقت سے گزرنا ہوتا ہے، فوج کو پتہ نہیں ہوتا کون سا دشمن ہے اور کون سا دشمن نہیں ہے، اس لیے میں ملٹری آپریشن کے خلاف تھا بلکہ پہلے دن سے مخالفت کی کہ ملٹری آپریشن نہیں کرنے چاہیئں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اور طریقے اختیار کرنے چاہیئں’۔

عمران خان نے کہا کہ ‘اب ہم پوری کوشش کریں گے کہ جو مشکلات قبائلی لوگوں کو پیش آئیں تو ان کے ازالے کی ہم پوری کوشش کریں گے’۔

قبل ازیں 4 فروری کو اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان نے تقریباً 8 کروڑ افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے لیے صحت انصاف کارڈ کا باقاعدہ اجرا کر دیا تھا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ کارڈ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ایک مزدور مشکل میں اپنے گھر کا خرچ پورا کرپاتا ہے اور جب بیماری ہوتی ہے تو پورے گھر کا بجٹ خراب ہوجاتا ہے جبکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی غریب گھرانے صرف بیماری کی وجہ سے غربت سے نیچے چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس صحت کارڈ سے ہم غریب طبقے کو تحفظ دیں تاکہ انہیں یہ تسلی ہو کہ اس کارڈ سے ان کا ہسپتال میں علاج ہوسکے۔

یاد رہے کہ وفاقی سطح پر صحت کارڈ کا اجرا سابق وزیراعظم نواز شریف نے 31 دسمبر 2015 کو کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس پروگرام سے ابتدائی طور پر 32 لاکھ خاندان استفادہ کر سکیں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے کہا تھا کہ پروگرام کا آغاز ابتدائی طور پر 15 اضلاع میں کیا جارہا ہے اور شروع میں 12 لاکھ خاندانوں کو قومی صحت کارڈ جاری کیے جائیں گے جس کے بعد مزید 8 اضلاع کے 20 لاکھ خاندانوں کا بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں