سعودی عرب پاکستان میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب آج پاکستان میں ہے اور پاکستان آج وہ فرشِ راہ ہے جس پر دیدہ و دل نچھاور ہوتے ہیں۔اس کیفیت پر کچھ زبانیں حا لتِ نماز میں پیدا ہونے والی اُس شاہراہ ِ خیال کی مانند دکھائی دیتی ہیں جس پر کسی روک ٹوک، کسی ہٹو بچو کا کوئی اشارہ نصب نہیں۔لہٰذا اس موقع پر جس جی میں جو آیا، اس نے کہا۔اللہ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔اس آوارہ خیالی نے یکا یک کئی ایسے سوالات پیدا کر دیے جن کے نتیجے میں ہمیں اپنا وجود ریت پر لکھی تحریر کی طرح نظر آیا جسے تند و تیز آندھی کی طرح شہزادہ محمد کی آمد مٹا ہی ڈالے گی۔

پاکستان لوحِ تقدیر پر لکھی ہوئی ایک اٹل حقیقت ہے اور سعودی عرب اسی تقدیر کی ایک ایسی خوش نما تصویر ہے جس کا ہر منظر ہمارے جسم و جاں کو معطر کرتا ہے۔سعودی ولی عہد ہمارے دلوں میں پاکیزہ جذبوں کی جوت جگا دینے والی اسی سلطنت کا مستقبل ہیں۔ ان کی پاکستان آمد پر شکوک و شبہات کے جھکڑ چلانے کے بجائے امید، سچائی اور داخل و خارج میں پُر امن بقائے باہم کے وہ دیے جلانے کی ضرورت ہے جو پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے کی راہیں روشن کریں۔

شہزادہ محمد کیا لے کر آرہے ہیں اور کیا لے کر جائیں گے؟معیشت کی ضرب تقسیم اور ریاضی کے گوشواروں میں اس کی اہمیت بلاشبہ بہت ہے اور کوئی قوم اپنی معیشت کو مضبوط بنائے بغیر خود اعتمادی کی اقلیم میں سراٹھانے کے قابل نہیں رہتی ۔معیشت کی یہ سچائی اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت اس سے بھی بڑی ہے کہ اگر کوئی معاشرہ ان معاشی اعداد و شمار ہی کو اپنا خدابنا لے تو پھر نہ کوئی اس کے ساتھ عزت کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہوتا ہے اور نہ اس کے ساتھ کسی قسم کا کاروبار کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

ہماری پریشانی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر پاک چین اقتصادی راہداری کے ہمارے ماہِ عروسی(Honeymoon) میں کسی اور ازقسم سعودی عرب وغیرہ نے قدم رکھ دیا تو جانے کیا قیامت ٹوٹ پڑے؟

معاشرے کے تاریک گلی کوچوں میں مایوسی اور تشکیک کی کوکھ سے جنم لینے والی اس طرح کی نفسیات تو انفرادی سطح پر بھی کسی کو کچھ نہیں دیتی ،یہاں تو معاملہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ہے جس نے پون صدی کے سفر میں پے درپے آزمائشوں کے پہاڑ سر کر کے ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں جینے کا ہنر سیکھنا ہے تو پاکستان سے سیکھو۔اس لیے ضروری ہے کہ امکانات کی دنیا میں جینے کا ہنر سیکھا جائے اور شک و شبہ اور تشکیک کی فضاوں سے نکل کر اعتماد اور سر بلندی کی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مختلف ملکوں کے درمیان دوستی کسی کو کسی خاص حلقے یا دائرے تک محدود نہیں سمجھناچاہئے بلکہ اسے وسعت اور ہمہ گیری کا ذریعہ بننا چاہئے تاکہ خیر سگالی، امن اور خوش حالی کے اثرات دور دور تک پہنچ سکیں۔

ولی عہد شہزادہ محمد کے دورہ پاکستان کو اسی جذبے کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ واضح ہو گا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران میں اس دنیا اور خاص طور پر اسلامی دنیا اور پاکستان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،سعودی عرب میں بھی انھیں بڑی شدت سے محسوس کیا گیا ہے جس کے بڑے غیر معمولی نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔

اس اعتبار سے یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ انتہا پسندی کے مضمرات کو سمجھنے اور اس مرض سے نجات پانے کے ضمن میں پاکستان اور سعودی عرب کے تجربات میں کافی یکسانیت ہے ۔دونوں ملک اس سلسلے میں کم و بیش ایک ہی جیسے نتائج پر پہنچے ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت نے اس سفر پر آگے بڑھنے کے لیے بھی ایک ہی طرح کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔

ادارہ تحقیقاتِ اسلامی(Islamic Research Academy) کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کے جید علمائے کرام کا اجتماع اور اس اجتماع کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ جہاد ایک ایسا بڑا اور غیر معمولی فیصلہ ہے جسے کچھ لوگوں یا گروہوں کے تعصبات یا دانش پر نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ یہ کام ریاست کا ہے جو اس پیچیدہ دنیا میں جنم لینے والے حالات و واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی بالکل اسی طرح کے نتیجے پر پہنچا ، لہٰذا شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی معاشرے کو ماضی کے قدیم قبائلی اندازِ فکر سے نکال کر جدید دنیا سے متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

سعودی تاریخ میں یہ اتنا بڑا قدم ہے جس کے اثرات صدیوں پر محیط ہوں گے اور صرف سعودی معاشرے ہی کو بہت سے زاویوں سے مثبت انداز میں تبدیل نہیں کریں گے بلکہ ان تمام عوامل اور امکانات کو بھی متاثر کریں گے ، ماضی میں جس کے اثرات دنیا کے بہت سے خطوں ، خاص طور پر پاکستان پر محسوس کیے گئے۔اِن مثبت ، امن دوست اور فکری اعتبار سے درست مقاصد کی آبیاری کے لیے ہمیں بھی ان کوششوں کا دست و بازو بن جانا چاہئے۔ اندازِ فکر کی یہی راستی یہ اُن خدشات اور مسائل کی اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکے گی جس پربعض لوگ پریشان ہیں۔

اتنے بڑے اور تاریخ ساز فیصلوں کے بعد سعودی ولی عہدکے چند ممالک کے اس سفر کو جس کی ابتدا پاکستان سے ہورہی ہے ، عمومی سفارت کاری کا روایتی سفر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ایک بڑے سفر کی ابتدا ہے جو سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ہم عصر دنیا کے لیے بھی خیر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

سعودی ولی عہد کا سفر ِپاکستان عالمی منظر نامے میں جس طرح بے شمار مثبت امکانات کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، اسی طرح پاکستان کی داخلی ہنگامہ خیزی میں بھی سکون کی کیفیات پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہاہے۔اس امید افزا تاثر کی تصدیق تو فوری طور پر ممکن نہیں لیکن اس کی تردید کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

قوم اور اس قوم کے ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑا دینے کے ارادے سے تلواریں سونت کر فتوحات کی امید وہ نقش ثابت ہوگی جو پانی پر اپنا جلوہ دکھا کر ذرا سی دیر میں تحلیل ہو جاتا ہے، لہٰذا جوش پر ہوش اور دانش کا غلبہ ضروری ہے۔اس خیال کے حقیقت میں تبدیلی ہوجانے کا امکان امید کی وہ کرن ہے جس سے ہماری قومی ترقی اور استحکام وابستہ ہے۔

خیال یہی ہے کہ اس سوچ کو عالمِ خیال سے نکال کر دن کی روشنی دکھانے میں بھی ہمارے دوستوں کی حوصلہ افزائی کو بڑا دخل ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح کے اِن واقعات و حوادث کے تناظر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آلِ سعود کا دورہ ِپاکستان غیر معمولی اہمیت اور امکانات کا حامل ہے ، ہم دل کی گہرائی اس جواں سال عالمی رہنما کا خیر مقدم کرتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں