انور گجر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیلگوں آسماں کے نیچ سبزنگیں بحرِ بیکراں کے درمیاں، تارکینِ وطن کا جہاں ، جسے مین ہیٹن کہتے ہیں یہ ایک بین الاقوامی شہر ہے جس میں تقریباً آٹھ سو زبانوں کے لوگ ہیں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، رنگ رنگ کے بندے ہیں، اونچے گِٹھے ، پھینے چپٹے ، موٹے ماڑے ، سوہنے کوجے ، گندمی گورے کالے رنگ برنگے دیسی بدیسی ہر نسل ہر ملک ہر جنس کے ملیں گے۔
اسی لیے نوع و اقسام کے رسم و رواج سے بازار سجتے ہیں اور مختلف الاقسام کلچر کے فروغ اور حفاظت اور مختلف الاجسام حسن کی نمائش کے لیے راتوں کو لائیو تھیٹر چلتے ہیں ، جہاں رنگ و بُو کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں حسیں ست رنگی تتلیاں اُڑتی ہیں ، جلتی بجھتی رنگیلی روشنیوں میں نیلی ہری اور بلوری آنکھوں والی ، سلِم سمارٹ خُوبرو ڈولفنن تیرتی ہیں ۔
یہ بہت سی تہذیبوں پہ مشتمل اور کئی تمدنوں کا گہوارہ ہے اور مختلف کلچرز کے حسین امتزاج کا گواہ بھی ۔اور تاریخی ورثوں کی حفاظت کے لیے بہت سے عجائب گھر ہیں جہاں اس ملک کے اصل باسی “ ریڈ انڈین “ کی خون آلود ننگی باقیات پڑی ہیں ، دھونس اور دھاندلی ، لالچ اور سازش ، گاجر اور گولی ، ڈالر اور ڈنڈا ، ترغیب اور صلیب، پناہ اور قبضہ کے مکروہ کھیل کی تصویری داستانیں آویزاں ہیں،پھر گوری چمڑی کی باہم خون ریزی کی بہ مجسم کہانیاں بھی دیواروں پہ نقش ہیں۔
یہاں سچ اور جھوٹ ، ظلم اور انصاف کے سب تاریخی نمونے اور شواہد محفوظ ہیں ۔یہ شہر خود بھی ایک عجائب گھر ہے، اور اس کے عجائبات میں عجب تضادات بھی چھپےہیں ، نیو یارک کی تین جداگانہ حثیتیں ہیں، یہ صوبہ بھی ہے ضلع بھی اور ایک شہر بھی ، اس شہر کی عمر تقریباً چارسو سال ہے۔
1624ء کی پیدائش ہے تو تمدنی عمر کے اعتبار سے یہ ایک نوجوان شہر ہے، جس کی رعنائی اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی ہے ، اس کا رقبہ بائیس 22 مربع میل اور آبادی تقریباً سولہ لاکھ ہے، مگر اس شہر میں روزی روٹی کے حصول اور شہر کی بتیاں دیکھنے کے لیے روزانہ چالیس لاکھ مزدور اور سیاح ، دنیا بھر اور گرد و نواح سے داخل ہوتے ہیں ، چونکہ داخلے کا کوئی خشکی راستہ نہیں ہے تو اس میں داخلے کے لیے کئی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔
پانی کے اوپر کئی چھوٹے بڑے سولا 16 پُل قائم کیے گئیے ہیں کسی پر بسیں اور کاریں چلتی ہیں تو کسی پر ٹرینیں دن رات دوڑتی ہیں ، پانی پر بوٹس اور فیری چھوٹے بحری جہاز مسافر لیے تیرتے ہیں ، اور پانی کے اندر تین سرنگیں لگا کر بڑی بسیں اور چھوٹی کاریں ہر طرح کی ٹریفک چلائی جاتی ہے ، فضا میں ہیلی کاپٹر بھنورے اور تتلیاں اُٹھائے اُڑتے پھرتے ہیں ۔
جہاں سب آنے والوں کو ایک “ مخنث نما “ مجسمہءِ آزادی ، کتاب اور مشعل تھامے خوش آمدید کہتا ہے ، جسے مرد ، عورت اور عورتیں مرد سمجھتی ہیں ۔ یہ چوبیس گھنٹے بھاگنے والا ساکن شہر ہے ، یہ آنکھیں بند کر کے دن رات جاگتا ہے ، تذکیر و تانیث اور دن و رات کی تفریق نہیں ہے، رات کو بھی رزق کا حصول جاری ہے اور دن کو بھی سکون پایا جاتا ہے۔
فطرت کو اُلٹ پلٹ کر رات کے راجے اور دن کی رانیاں کولہو کے بیل کی طرح دوڑ رہے ہیں مگر ہر سوموار کو اسی مقام پہ ہوتے ہیں جہاں پچھلے سوموار تھے، دن پہ تاریکی کا سایہ ہے اور رات کو تاریکی ایسے جگمگاتی ہے کہ آنکھیں چندیاتی ہیں ، جہاں آسمان کو چھوتی بلند و بالا عمارتیں ایسے ایستادہ ہیں جیسے زمین پہ بنی نہیں بلکہ زمیں میں اُگی ہوئی ہیں ، اور سر وقد درخت ان عمارتوں کی قدم بوسی کرتے ہیں یا اس کے پیروں کی پائل لگتے ہیں ، اور عمارتوں کے جڑیں زمیں کے اندر بہت گہری سطحِ آب سے بھی نیچے تک اُتری ہوئی ہیں۔
یہ شہر جیسے اور جتنا زمین کے اوپر کھڑا نظر آتا ہے ، اتنا ہی زمین کے اندر بیٹھا ہوا بھی ہے ، سارا شہر نیچے مٹی سے خالی ہے ، شہر کے نیچے ٹرینیں چلتی ہیں ، زمیں میں کئی منزلہ ٹرین سٹیشن ہیں ، بسوں کے اڈے ہیں ، جم خانے ہیں ، شہر کو ٹھنڈا اور گرم رکھنے کے کارخانے ہیں ، بازار ہیں شاپنگ سنٹر ہیں ، “ گویا شاخِ نازک پہ آشیانہ ہے “ عمارتوں میں قدیم آرٹ بھی ہے اور جدید اسلوب کا انگ رنگ بھی ۔ شہر میں لوگوں کا ہجوم ہے ، جس میں تنہائی کی اتنی بھیڑ ہے خودی کی پہچان نہیں رہتی ، گاڑیوں کے شور کا ایسے غضب کا سناٹا ہے کہ خاموشی کی چیخیں روح میں دور تک سنائی دیتی ہیں، یہ زندہ لاشوں کا مردہ شہر ہے ، جس میں قبریں زمین پہ بچھنے کی بجائے آسمان کی جانب کھڑی ہیں۔
چو بیس گھنٹوں میں ہر آٹھ گھنٹے بعد بگل بجتا ہے اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کر یوں بھاگتے ہیں کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی ، ایسی ہبہ تبہ مچی ہے کہ “ الھٰکم التکاثر ، حتیٰ زر تم المقابر “ اک کمرے میں رہتے ہوے دو بھائیوں کی ملاقات مہینوں نہیں ہوتی ، خود سے بات بھی کئی پہروں نہیں ہوتی۔ شہر نے اپنا ہجوم تقسیم کر رکھا ہے ، کچھ دفاتر میں ہیں ، کچھ پارک میں ، کچھ گھر میں تو کچھ راہ میں ہیں ، سب لوگ ایک وقت میں کسی ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے، اگر سب کا ٹائم ایک ساتھ دفاتر میں ہو تو دفتر اکھاڑے بن جائیں ، گھر میں ہو تو گھر جیل ہو جائیں، سڑکوں پہ ہوں تو ریلی بن جائے ، پارکوں میں ہوں تو جلسہ گاہ کا منظر ہو ۔
عجب شہر ماتم و شادمان ہے جس میں دُکھ اور خوشیاں سگی بہنوں کی طرح ایک ساتھ پلتی ہیں ایک ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہیں ،یہاں آپ کی روزی کا سامان بھی ہے ، آپ کا لحاظ بھی ہے قدر بھی ہے مگر دل کو چھوتے احساس سے خالی ، جذبات سے عاری لوگوں کا مسکن ہے ، شناسا چہروں پہ بھی نا آشنائی کے خول چڑھے ہیں ، سامانِ دل جوئی تو ہے مگر دل ربائی نہیں، احترامِ آدمیت ہے مگر مہرو وفا نہیں ، احساسِ تحفظ ہے مگر احساسُ مروّت نہیں ، یہاں سارا زور “ مادہ “ پہ ہے گویا یہ مادہ پرستوں اور مادہ پریوں کا شہر ہے ، جہاں ساری جدوجہد مادے کی خوبصورتی اور مادہ کی آذادی کے لیے ہے ، تا کہ ٹھوس مادہ کی فراوانی اور حسین مادہ کی فراہمی ، مادیت پرستوں کے لیے ممکن اور آسان بن سکے۔
خود اس کی اکائی کئی دہائیوں میں بٹی ہوئی ہے، شمالی جنوبی، شرقی غربی ۔ مگر ہر شاخ باہم متصل اور جُڑی ہوئی بھی ہے اور جدا جدا بھی ، ہر برانچ کا رنگ اور بُو مختلف ہے ، شمال کی طرف وال سٹریٹ “ دیوار والی گلی “ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ دنیا کی کل دولت کا پینسٹھ فیصد % 65 حصہ اس گلی کی دیوار نیچے دبا ہوا ہے، تو جنوب کی طرف نہ دیوار ہے نہ گھر ہے نہ کھانا ہے۔
مغرب میں ٹائم سکوائر پہ اچھلتی کودتی چمکتی دمکتی گرتی اُٹھتی حسین بجلیاں ہیں تو مشرق میں علمِ عمرانیات ، سائنس و ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیاں ہیں ۔ہر دو مربع میل پہ مسجد بھی ملے گی جو اپنے مصلین سے تنگی ءِ داماں کی شکائت کرتی ہے ، کہ مصلین زیادہ ہیں اور مصلے کم ۔۔۔ عجب شہر ہے 16 لاکھ میزبانوں کی روزانہ 40 لاکھ مہمانوں کی مہمان نوازی ، چشموں کے ٹھنڈے میٹھے پانی اور بین الاقوامی ذائقے کے پکوانوں کے ساتھ اسکی انفرادیت ہے۔