محمد عثمان جامعی
امن کا نوبیل پرائز دراصل ”من“ کا نوبیل انعام ہوتا ہے، جو اُسے دیا جاتا ہے جو دینے والے پیا کے من کو بھاتا ہے۔ اس بار ممکن ہے کہ پیا کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھاجائیں۔ ٹرمپ کی اپنی بیگم سمیت دنیا میں کسی سے نہیں بنتی، یوں وہ گھر سمیت دنیا بھر میں امن کا نہیں نقص امن کا نشان ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ جاپان کے وزیراعظم شنزوآبے نے ایک درخواست کے ذریعے امن کے نوبیل انعام کے لیے ٹرمپ کا نام تجویز کیا ہے۔
یہ تو خیر ٹرمپ ہیں، جاپان تو امریکا پر سو جان سے ایسا فدا ہے کہ وہ وہائٹ ہائوس کی فرمائش پر ہیروشیما اور ناگاسی ساکی پر ایٹم بم برسانے کا حکم دینے والے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین کو بھی امن کے نوبیل انعام کے لیے نام زد کرسکتا تھا۔ ٹرمپ کا نام بھی جاپانی وزیراعظم نے خود پیش نہیں کیا، بلکہ ٹرمپ صاحب نے خود کو اس انعام کے قابل سمجھتے ہوئے شنزوآبے سے کہا،”ابے شنزو! ایک کام تو کر، نوبیل امن انعام کے لیے اپنے بھائی کا نام دے دے۔“ یہ ہم نہیں کہہ رہے، ایک جاپانی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم شنزو آبے نے نوبیل انعام برائے امن کے لیے صدر ٹرمپ کا نام خود سے نہیں بلکہ امریکی صدر کی درخواست پر تجویز کیا۔
اس انکشاف نے صدرٹرمپ کا بھانڈا پھوڑ کر ان کی عزت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ جاپانی وزیراعظم نے انھیں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر نوبیل انعام برائے امن کے لیے نام زد کیا ہے اور اس کے لیے وزیراعظم شنزوآبے نے پانچ صفحات پر مشتمل خوب صورت خط تحریر کیا ہے۔ حقیقت یہ سامنے آئی کہ ڈونڈ ٹرمپ نے ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“،”ساڈا حق ایتھے رکھ“ اور ”کس کا ہے یہ تم کو انتظار میں ہوں ناں“ کہتے ہوئے اپنا نام خود ہی پیش کیا ہے، اور اپنے نام کے چکر میں جاپانی وزیراعظم کو بدنام کردیا۔ ٹرمپ صاحب کو امن کا نوبیل انعام ملنے پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوگی، کیوں کہ فلسطینیوں کے خون میں لتھڑے اسرائیل کے وزرائے عظم بیگن اور آئزک روبن یہ انعام پاسکتے ہیں تو ٹرمپ کیا چنگیزخان اور ہٹلر کو بھی اس اعزاز کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے، کوئی نہ کوئی جواز تو مل ہی جائے گا۔
نوبیل انعام کے قوانین کی رو سے اس انعام کے لیے کوئی بھی شخص کسی کا بھی نام تجویز کرسکتا ہے، تو کیوں نہ ہم بھی نوبیل امن انعام کے لیے کچھ نام پیش کردیں، جن کی امن کے لیے خدمات ٹرمپ صاحب سے زیادہ ہی ہوں گی۔
رائو انوار
انھیں آصف زرداری پیار سے ”بہادر بچہ“ کہتے ہیں۔ پروین شاکر کو ایسے بچوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا ورنہ وہ ”بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے “ والا شعر یوں کہتیں:
جُگنو پہ یہ گولی کے برسنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے سفاک ہوگئے
رائوانوار صاحب بہت محب وطن ہےں۔ وطن کی ساری زمین کو اپنا سمجھتے ہیں۔ بہت امن پسند ہیں، ان کی امن پسندی دیکھتے ہوئے بڑے بڑے دہشت گرد بھی ان پر گولی نہیں چلاتے کہ صاحب کو بدامنی پھیلاتے دیکھ کر غصہ آجائے گا، وہ چُپ چاپ گولی کھالیتے ہیں۔ امن کے لیے رائو صاحب نے بے شمار پولیس مقابلے کیے ہیں۔ انھیں پولیس مقابلہ اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ پولیس والوں کے درمیان ملزم پر پہلی گولی چلانے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ امن قائم رکھنے کے معاملے میں رائو صاحب اتنے جذباتی واقع ہوئے ہیں کہ بہت سے شہریوں کو بس اس لیے مار دیا کہ کہیں وہ دہشت گرد، ڈاکو، قاتل بن کر بدامنی نہ پھیلائیں۔ امن قائم کرنے کی ان کوششوں پر انھیں نوبیل امن انعام دیا جانا چاہیے۔
گُلوبٹ
ان صاحب نے گاڑیاں توڑ کر شہرت پائی۔ یہ توڑ پھوڑ دراصل امن کے لیے تھی۔ بٹ صاحب سمجھتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجادات نے دنیا میں بدامنی کو فروغ دیا ہے۔ ان ایجادات ہی کی وجہ سے جنگ پسند حکم راں اور دہشت گرد عسکریت کے مظاہرے کرتے اور جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ بٹ صاحب بم، بندوقیں اور ٹینک وغیرہ توڑنا چاہتے تھے، مگر ایسی کسی کوشش میں خود ٹوٹ پھوٹ سکتے تھے، چناں چہ اپنی پُرامن دنیا کی خواہش کو بروئے کار لینے کے لیے انھوں نے کاروں کا انتخاب کیا۔ ممکن ہے وہ اپنی سادہ لوحی کے سبب کاروں کو توپ سمجھے ہوں۔ بہ ہر حال اپنی امن کی اس کاوش کی بنا پر وہ نوبیل امن برائے انعام کے مستحق ہیں۔
منشا بم
یہ حضرت حسب منشا زمینیں اپنے تصرف میں لاتے رہے ہیں۔ رائوانوار کی طرح منشا بم کو بھی سرزمینِ وطن سے اتنا پیار ہے کہ وہ ہر ایک کی زمین کو اپنا سمجھ لیتے ہیں، اور اپنا بھی لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی طاقت اور تعلقات کا جو بھی استعمال کیا ہو لیکن ان کی یہ مہربانی کیا کم ہے کہ بم ہونے کے باوجود وہ پھٹے نہیں، حاؒلاں کہ اگر ان کی منشا پھٹنے کی ہوتی تو انھیں پھٹنے سے کون روک سکتا تھا۔ بم ہونے کے باوجود صرف امن کی خاطر نہ پھٹنے پر وہ نوبیل امن پرائز کا اعزاز پانے کے حق دار ہیں۔
سیکٹرانچارج بھائی
ان بھائیوں نے ایک عرصے تک کراچی میں امن قائم رکھا، ان کے ہوتے ہوئے کراچی کے اکثر علاقوں میں کسی اور کو بدامنی کی اجازت نہیں تھی۔ یہ اتنے پُرامن تھے کہ ان کے مقابلے میں مخالفین کو بھی ‘لوہا لوہے کو کاٹتا ہے’ کے مصداق امن کمیٹی بنانی پڑی۔ یہ امن پسند بھائی لوگ اسلحے سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ اسلحہ خرید کر چُھپا دیتے تھے، تاکہ کسی کے کام کا نہ رہے۔ وہ تو چندے کی رقم کم پڑگئی ورنہ عمارتوں سے ان کے چُھپائے ہوئے ایٹم بم بھی برآمد ہورہے ہوتے۔ امن کی خاطر اتنے جتن کرنے والے یہ بھائی لوگ اجتماعی طور پر امن کے نوبیل انعام لینے کے پوری طرح اہل ہیں۔
پیپلزامن کمیٹی
نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد امن تھا۔ اس کمیٹی کے قیام نے یہ حقیقت سمجھائی کہ عام لوگ اپنی مالی ضروریات کے لیے کمیٹی ڈالتے ہیں اور خاص لوگ اس مقصد کے لیے کمیٹی بناتے ہیں۔ امن کمیٹی کے ارکان پیسے اور اس کی لالچ کو بدامنی کا بنیادی سبب سمجھتے تھے، اس لیے یہ بُرائی جہاں ملتی اپنے قبضے میں کرلیتے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی کے پُرامن رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہوش میں نہ رہے۔ لوگوں کو مدہوش رکھنے کے لیے یہ انھیں ہوش رُبا اشیاءفراہم کرتے تھے، کیوں کہ اپنی امن پروری کے باعث یہ معاشرے کے ہیرو تھے، اس لیے ہیروئن بھی ان ہی کی تھی، مگر یہ بانٹنے پر یقین رکھتے تھے، اس لیے ان کے دور میں لیاری دو حصوں میں بٹ گیا اور ہیروئن تو گلی گلی بٹی۔ امن کے لیے اتنا کچھ کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف انھیں امن نوبیل انعام دے کر ہی کیا جاسکتا ہے۔