عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارتی طیاروں کے پاک فضائوں میں گھس آنے پر پاکستانی قوم کا ردعمل شدید ہے اور سخت بے چینی پر مبنی ہے۔ ہر فرد کہہ رہا ہے کہ بھارتی طیارے صحیح سلامت کیسے واپس چلے گئے، سب کے سب ڈھیر کردئیے جاتے تو پوری دنیا جان لیتی کہ پاکستان کا دفاع واقعی اس قدر مضبوط ہے کہ اس کی سرحدوں میں گھسنے سے پہلے ایک ہزار بار سوچنا چاہئے۔
بھارتی طیارے کیوں نہ مارگرائے گئے؟ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کل کی پریس کانفرنس میں اس سوال کا جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “انڈیا ملٹری مقامات پر حملہ کرنا چاہتا تو وہ ایل او سی کو عبور کیے بغیر بھی کر سکتا تھا لیکن اس نے صرف ’ڈرائے رن‘ کرنا تھا”۔
“پہلی سٹرائیک کا ردعمل فوری طور پر ہوتا ہے۔۔۔۔ یا تو ہم بھی سرحد عبور کرتے۔ لیکن میں نے آپ کو کہا تھا ناں کہ ہم مختلف انداز میں ردعمل دیں گے اور آپ کو سرپرائز دیں گے۔ اور میں آپ سے کہہ رہا ہوں پلیز ویٹ کریں۔”
پاکستان نے یہ طیارے نہ گرا کر اس اعتبار سے اچھی حکمت عملی اختیار کی کہ وہ بھارتی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرے، بتائے کہ یہ بھارت ہے جو جارحانہ حملے کررہا ہے، ہم مسلسل برداشت کررہے ہیں۔ ہاں! اب اس جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اب کوئی ہمیں برداشت کا سبق نہ دے۔ جو عالمی برادری بھارت کو جارحیت پر لعن طعن نہیں کرسکتی، اس کے خلاف اقدامات نہیں کرسکتی، اسے کوئی حق نہیں کہ وہ ہمیں صبروتحمل کی تلقین کرے۔
اس حکمت عملی کے تحت سب سے پہلے پاک فوج کے ترجمان نے بھارت کے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا کہ “ہم نے جیش محمد کے تربیتی کیمپ پر حملہ کرکے ساڑھے تین سو سے زائد جنگجوئوں کو ہلاک کیا”۔۔۔۔۔۔۔ میجرجنرل آصف غفور نے بخوبی بھارتی دعوے کے تاروپود بکھیرے کہ وہاں ایسا کوئی تربیتی کیمپ تھا ہی نہیں۔
اس کے بعد دفتر خارجہ میں وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی متفقہ رائے ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف جارحیت ہے اور پاکستان اس کا جواب دے گا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا کو موقع پر لے جایا جائے گا تاکہ وہ خود دیکھیں اور بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب کریں۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہےکہ عالمی رہنماؤں سے رابطے کیے جائیں گے، اسی تناظر میں ترکی کے وزیر خارجہ کو تفصیلی طور پر آگاہ کردیا گیاہے، اس کے علاوہ وزیراعظم بھی عالمی رہنماؤں سے رابطے کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کو کئی ہفتے پہلے بتاچکے تھے کہ مودی سرکار سیاست کی ضروریات اور الیکشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی نہ کوئی مس ایڈونچر کرنے کی ضرورت محسوس کررہی ہے کیونکہ پانچ ریاستوں میں جو انتخابی نتائج سامنے آئے اس میں بی جے پی کو مسترد کیا گیا، بھارت میں الیکشن سے پتا چل رہا ہےکہ بی جے پی کو سیاسی بقاء کیلئے کوئی نہ کوئی حرکت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑھاوا دینا ہمارا مقصد نہیں ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی لیکن جارحیت کا جواب دینا ہمارا حق ہے اور قوم مایوس نہیں ہوگی،اس وقت صورتحال بہت نازک ہے، ہم پاکستانی وقار اور سرحدوں کے دفاع کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے طیارے تاخیر کا شکار نہیں ہوئے، اگر پاکستان کی فضائیہ کو پتا نہ ہوتا تو جواب کیسے دیا جاتا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ کرے گا جو اسے کرنا چاہیے۔
پاکستان مذکورہ بالا حکمت عملی پر بخوبی آگے بڑھ رہاہے، اس پر ملک کی سیاسی قیادت کو مزید بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلآ وہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اعتماد میں لے۔ او آئی سی سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے رکن ممالک سے کہے کہ وہ اپنے سفیروں کو احتجاجآ بھارت سے واپس بلائیں، بھارتی سفیروں کو اپنے ہاں سے نکال باہر کریں۔ اس کے بعد پاکستان اوآئی سی کے اجلاس میں شرکت کرے اور وہاں مدعو بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج سے سب ممالک وضاحت طلب کریں۔
پاکستان دنیا کے سامنے صرف ایک ہی مطالبہ رکھے کہ وہ بھارت کے خلاف اقدامات کرے بصورت دیگر پاکستان اس جارحیت کا جواب ضرور دے گا جیسا کہ پاک فوج کے ترجمان نے کہا۔ پاک فوج کو اس کا جواب ضرور دینا چاہئے ورنہ قوم بے چین رہے گی اور دشمن یہ سمجھے گا کہ پاکستان تر نوالہ ہے۔