مائیکروف

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

روبینہ شاہین۔۔۔۔۔۔۔۔
دھرتی کا پورا وجود لہو لہو تھا۔۔اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا مگر وہ اپنے مدار میں چپ چاپ گردش کیے چلے جا رہی تھی۔

اس کی ساری اولاد اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ جانور،چرند پرند اور سب سے لاڈلی مخلوق انسان،جو اسے سب سے زیادہ عزیز تھا مگر ستم بالائے ستم اسی انسان کے ہاتھوں اسے سب سے زیادہ چرکے لگائے گئے۔پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟جو آپ کا پیارا ہوتا ہے آپ اس کے پیارے کیوں نہیں ہوتے؟زمین کی آہو بکاہ جاری تھی۔۔

وہ بولتے بولتے گہری سوچ میں ڈوب جاتی جیسے حالت ارتکاز میں ہو۔۔آج کل وہ کچھ زیادہ ہی چپ رہنے لگی تھی،کوئی سننے والا پرسان حال جو نہ تھا ایسے میں وہ اپنا دکھ کہتی بھی تو کیسے کہتی۔

سردی نے اس کی بوڑھی ہڈیوں میں سنسناہٹ پیدا کردی تھی،حالیہ ریکارڈ توڑ برف باری نے اس کا جسم تو کیا سوچیں بھی منجمد کردی تھیں،ایسے میں سورج کی چنگاریاں جو کبھی کبھار ہی سہی اس کے ٹھٹھرتے وجود میں حرارت پیدا کردیتے تواس کے سوچنے کی حس بھی کام کرنے لگتی۔ آج بھی ریکارڈ توڑ برف باری کے بعد تھوڑی دھوپ نکلیں تھیں،اس کی کرنوں میں اپنا آپ گرم کررہی تھی جب ایک خبر سنائی دی۔

امریکہ بہادر جو کہ اس کا سب سے امیر اور بگڑا ہوا بیٹا تھا۔جتنا خوبصورت دکھتا تھا اس سے کہیں زیادہ بدصورت تھا،جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے اصل خوبصورت جسم نہیں ہوتے بلکہ باطن ہوتے ہیں۔تو میرے اس بدمعاش بیٹے نے بالآخراپنے ناجائز قبضے کو جو کئی سالوں سے غریب لوگوں کی زمین پہ جما رکھا تھا چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔دھرتی نے انگڑائی لی،اسے جھرجھری سی آئی تھی،امریکہ کی بدمعاشی پہ نہیں بلکہ ایک مرد مومن کی کہی ہوئی بات پہ۔

ایمان اور یقین والوں کی دنیا ہی الگ ہوا کرتی ہے۔ وہ بھلا مانس جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔بش نے اس کی زمین پہ قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے للکارا کہ ہم دنیا میں تمہیں جینے نہیں دیں گے،زمین تیرے اوپر تنگ کردیں گے۔وہ بھلا مانس تھا چپ رہا،سوچتا رہا،کہتا بھی تو کسے کہتا،اس کے اپنے بھی اس کے ساتھ جا ملے تھے۔۔۔کیا زمانہ تھا جب دیواریں ہی نہیں دل بھی سانجھے ہوا کرتے تھے۔لوگوں نے دیواریں بھی الگ کرلیں اور دل بھی،پاکستان سے اسے بڑی امیدیں تھیں مگر۔۔ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔ ہو گی اس کی بھی کوئی مجبوری۔

کہا نا بڑا ہی بیبا بچہ تھا،مجال ہے کسی کے لئے اپنے دل میں بغض اور کینہ پالے،کیونکہ وہ جانتا تھا دل اللہ کا گھر ہے اس گھر سے وہ چلاجاتا ہے جہاں بغض اور کینہ رکھا جائے۔چپ چاپ دعائیں کرتا رہا،ادھر ادھر سے خبریں اس کے کانوں تک پہنچتیں مگر وہ چپ چاپ آسمان کی جانب دیکھتا۔آسمان والے سے ہی اس کی ڈیلنگ تھی۔جانتا تھا جو زمین پہ نہیں ہوتا ،آسمان پہ ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے۔

اسی انتظار میں ظلم دیکھتا رہامگر مجال ہے جو نا شکری کا ایک لفظ بھی بولا ہو۔ بولا بھی تو کیا بولا فقط اتنا "امریکہ کہتا ہے ہم تم پہ زمین تنگ کردیں گے میں یہ کہتا ہوں اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔دیکھیں کس کی جیت ہوتی ہے؟بے یقینوں کی اس دنیا میں بڑے ہی یقین والا تھا اس بات کو چپ چاپ سہتا رہا،کئی سال بیت گئے،ایک دن چپ چاپ میری گود میں آیا اور آنکھیں موند لیں۔

میں نے اپنے دونوں بازو اس کے لیے وا کردیےاور وہ میٹھی نیند سو گیا۔کہا نا وہ مجھے بہت پیارا تھا۔کیونکہ وہ رب کا پیارا تھا۔آج افغانستان سے امریکیوں کی واپسی بتارہی ہے کہ اس بھلا مانس کایقین کتنا سچا تھا۔اللہ کی زمین اللہ والوں کے لئے آج بھی وسیع ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں