+18 لکھنے کا اصل مقصد کیا ہے،کیا آپ جانتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامی معاشرہ، زندگی کے جس حصے میں فرد پر پابندی لگاتا ہے، مغربی معاشرہ وہیں پابندی اٹھاتا ہے۔

جو لوگ، اسلامی معاشرت اور مغربی معاشرت میں ہم آہنگی، مشترکات اور موافقت (compatibility) قائم کرنے کے قائل یا داعی ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دونوں معاشرتیں آگ اور پانی ہیں جو کبھی باہم مل نہیں سکتیں بلکہ ہمیشہ آپس میں متصادم رہیں گی۔

اب اسلامی معاشرے کے نظامِ شرم و حیا ہی کو لے لیجیے، ہر دو معاشروں میں، فرد کی پرورش ایک الگ ہی ماحول میں ہوتی ہے۔

مثلاََ: قرآن جہاں خواتین کو پردے کا حکم دیتا ہے وہیں انہیں اتنی ڈھیل بھی دیتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ایسے نوخیز لڑکوں سے پردہ نہ کریں، جو ابھی ناسمجھ ہیں یا جو ابھی نسوانی رازوں سے ویسے آگاہ نہیں ہوئے جیسے کہ ایک بالغ فرد ہوتا ہے۔

اس کے برعکس، آپ آج کے مغربی معاشرے کو دیکھ لیں۔ آپ کو ان کے ہاں شرم و حیا نام کی کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی جس کا اہتمام کرنا فرد کے لیے ضروری ہو۔ حد سے حد وہ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ جو لڑکا یا لڑکی اٹھارہ سال سے چھوٹے ہیں ان کو ایسی ویسی چیزوں سے دور رکھنا چاہیے۔ اسی لیے +18 کا ایک فارمولا ایجاد کیا گیا۔

یاد رہنا چاہیے کہ ان کی (+18والی) اس روک کے پیچھے شرم و حیا کا عنصر یا اس لڑکے یا لڑکی کی اخلاقی صحت بگڑنے کا خدشہ کارفرما نہیں ہوتا بلکہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال سے قبل جنسی افعال کی وجہ سے فرد جسمانی طور پر کہیں کمزور نہ رہ جائے۔

اسی لیے اب ہمارے یہاں بھی (+18والا) یہ فارمولا کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے۔ غیر اخلاقی تحریر، تصویر یا گفتگو سے قبل بس اتنا لکھ دینا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ پیش کیا جانے والا مواد صرف بالغان کے لیے ہے۔ حالانکہ یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب فرد کے بے لگام، منہ زور اور اخلاقی حدود توڑتے جنسی میلانات کو قابو میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

کیا اٹھارہ پلس لکھ دینے سے اللہ کے فرشتے دوسری طرف منہ کر لیتے ہیں یا کراماََ کاتبین اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں