آپ بزرگوں کو تشدد کا نشانہ تو نہیں بنارہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نیرتاباں۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں پر تشدد کی مختلف اقسام ہیں۔ ہم خاموشی سے اپنے آس پاس بسنے والے بزرگوں پر نظر ڈالیں اور اپنے اور اپنے بچوں کا ان بزرگوں سے رویہ دیکھیں۔

نظر انداز کرنا:
کھانے پینے اور ان کی پرہیزی غذا میں لا پرواہی
بتیسی، عینک، سننے کا آلہ، لاٹھی خراب ہو جانے پر لانے میں دیر کرنا
کپڑوں اور جسمانی صفائی کا خیال نہ کرنا
ڈاکٹر کے پاس لے جانے اور دوائیوں میں کوتاہی
خشک ایڑیاں صاف نہ کرنا، جلد اور بالوں کی صفائی کا خیال نہ کرنا،
کمرے میں بہت دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دینا

جسمانی طور پر:
اٹھنے بیٹھنے چلنے میں اگر ان کو مشکل ہو تو ان کے لیے کسی مددگار کا انتظام نہ کرنا، خود بھی جب تک ٹال سکیں، ٹالنا۔
کبھی کپڑے خراب ہو جائیں تو سب کے سامنے اس بات کا ذکر کرنا، یا ان کے سامنے بار بار تذکرہ کرنا
ان کے آرام کے اوقات میں اونچا ٹی وی لگانا اور بچوں کو شور ڈالنے سے منع نہ کرنا

مالی طور پر:
لین دین، ضروریات اور آسائشوں پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہ دینا
ان کی زندگی میں ہی ان کی جائداد بانٹنے اور حصوں کا ذکر کرنا
ان سے لیے پیسوں کا ان کو جواب نہ دینا کہ کہاں آئے، کدھر گئے
سب گھر والوں کے موسمی کپڑے اور جوتے لینا اور ان کو بھول جانا۔ عید، شادی کے مواقع پر سب کی شاپنگ ہو جانا، انکو چھوڑ دینا۔

بنیادی حقوق کی تلفی:
وقت نہ دینا۔
سلام دعا اور پیسے دے دینے کے بعد سمجھنا کہ حق ادا ہو گیا۔
سب سمجھدار لوگوں سے مشورے کا اہتمام کرنا لیکن والدین کو شامل نہ کرنا
ان کے فیصلے خود کرنا، ان کو ان کی مرضی نہ کرنے دینا
تیز آواز یا سخت لہجے میں چڑ کر جواب دینا
اپنے بچوں کو ان کے نانا نانی، دادا دادی کے قریب ہونے کے مواقع نہ دینا، اور ان کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی ترغیب نہ دینا

ممکن ہے یہی بزرگ جب خود جوان تھے، انہوں نے اولاد کے ساتھ بس پیسہ لو اور پیسہ دو کا تعلق رکھا ہو۔ بچپن سے کوئی جذباتی تعلق بنایا ہی نہیں ہو۔ لیکن اب وہ کمزور ہیں۔ ہم نے انہیں امتحان میں نہیں ڈالنا، بڑھاپا خود ہی ایک امتحان ہے۔ حتی المقدور کوشش یہی کرنی ہے کہ انہیں گھر کا اہم فرد سمجھیں اور اپنے مال، وقت، اور محبت میں ان کا خاص حصہ رکھیں۔ ہم جو آج چار بندوں کے سامنے بول سکتے ہیں، سلجھے ہوئے طریقے سے اپنے آپ کو پریزیڈنٹ کر سکتے ہیں، اس سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان کا ہاتھ ہے، ان کی دعائیں ہیں۔ ان کے پاس بیٹھیں، حال احوال پوچھیں، بار بار کے سنے ہوئے ان کے قصے کہانیاں پھر سے سن لیں، ان سے مشورے لیا کریں، دور ہوں تو فون کر لیں۔ ہو سکے تو آن لائن درسِ قرآن وغیرہ سے جوڑ دیں۔ پکنک وغیرہ پر انکی صحت کے پیشِ نظر اگر ساتھ لے جانا ممکن نہ ہو تو الگ سے باہر گھمانے پھرانے لیجائیں۔ ٹیکنالوجی جیسے فون ایپ وغیرہ سمجھانی ہو تو صبر و تحمل سے سمجھائیں۔ کوشش کریں کہ بس اللہ کی رضا کے لیے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں