متبادل معاشی منصوبہ سامنے آگیا، کیا حکومت عمل کرپائے گی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمودسالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز بروز بڑھتی مہنگائی پر عوام چیخ رہی ہے اور حکومتی پارٹی کے حامی بضد ہیں کہ حکومت کو پانچ سال دئیے جائیں اور تیل کی بڑھتی قیمتوں اور مہنگائی کے خلاف بات نہ کریں۔ یا تو کوئی معاشی منصوبہ پیش کرے ورنہ خاموش رہیں۔
یہ لیجیے ایک سادہ معاشی منصوبہ، اس پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے نا کہ عوام کا۔

•ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں کو ایک سال کے لیے نصف کرکے باقی نصف ملکی قرضہ ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
•ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو جو سفری اور دیگر اخراجات دیے جاتے ہیں وہ بھی نصف کردیے جائیں۔
•تمام ممبران اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کے نصف اثاثہ جات کو حکومت وقت اپنی گارنٹی پر ان ممبران سے بطور قرضہ حاصل کرکے قومی قرضہ ادا کرے۔

•ایک فنڈ قائم کرکے ہر اس ممبر اسمبلی سے اس کے کاروبار کا کم از کم ایک چوتھائی منافع قرضہ فنڈ میں جمع کیا جائے جو ذاتی کاروبار اور زمینداری سے منسلک ہے۔

•جن کاروباری اور سیاسی افراد کے پاس سونا کثیر مقدار میں بطور اثاثہ محفوظ ہے ان سے حکومت اپنی گارنٹی پر سونا لے کر ملکی معیشت کو سہارا دے اور بیرون ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے پاکستان کے امراء کے اثاثہ جات کو ملکی معیشت میں استعمال کیا جائے۔
•بڑے شہروں میں موجود کاروباری ایکسپورٹرز کا سختی سے حساب کرکے انڈر ان وایسنگ کرنے والوں سے قانون کے مطابق ٹیکس اور کسٹم فیس لی جائے۔ ( میرے ذاتی رف اندازے کے مطابق ماہانہ اربوں روپے کی ٹیکس اور کسٹم چوری صرف سیالکوٹ اور فیصل آباد میں ہوتی ہے) وہ پیسہ ملکی معیشت کے دھارے میں لاکر معیشت کو سنبھالا جاسکتا ہے۔

•سرکاری اداروں کے پاس جو سینکڑوں گاڑیاں افسر شاہی کے استعمال میں ہیں ان کی تعداد کو کم سے کم کرکے تیل اور دیگر اخراجات کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔
•قومی شاہراہوں پر کسی فرد اور ادارے کو ٹول ٹیکس سے مبرا نہ کیا جائے اور کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے ہر گاڑی سے ٹول ٹیکس لیا جائے۔

•واپڈا کے ملازمین کو بجلی کا بل ادا کرنے کا پابند کرکے عوام پر سے بھاری بلوں کا بوجھ کم کیا جائے۔واپڈا اہلکار ماہانہ تنخواہیں لیتے ہیں ایک بھی فرد فی سبیل اللہ کام نہیں کرتا تو پھر بجلی استعمال کرنے پر ان سے بھی بل لیا جائے۔
•ملکی وسائل کو استعمال میں لایا جائے اور درآمدات پر کنٹرول کیا جائے۔

•کسٹم اور دیگر معاشی انتظامی اداروں کے ملازمین کو سالانہ بنیاد پر تبادلہ کرکے کرپشن کی روک تھام کی جائے۔ ایک ہی ملازم سالہا سال سے ایک جگہ پر اجارہ داری بنائے عوام کو لوٹ رہا ہے۔
ان چند تجاویز میں سے نصف پر بھی عمل کرلیا جائے تو ملکی معیشت بڑے پیمانے پر سنبھل جائے گی۔

نوٹ:
انڈر انوایسنگ کیا ہے؟
بڑے بڑے کاروباری مگرمچھ بیرون ملک جب مال بھیجتے ہیں تو بل میں اور دیگر برآمدی کاغذات میں مال کی قیمت بہت کم لکھی جاتی ہے اس سے کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے۔ ایک کروڑ کے سامان کی قیمت پانچ سے سات لاکھ روپے ظاہر کی جاتی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں