قرآن کلاس میں شرکت، میری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدیحہ مدثر۔۔۔۔۔۔
"سمعناواطعنا۔۔۔۔” قرآن پاک میں بار بار یہ الفاظ پڑھے لیکن کبھی غور ہی نہ کیا کہ یہ کتنی گہرائی لیے ہوئے ہیں۔۔’سمعنا’۔۔یعنی ہم نے سنا ‘واطعنا’ اور ہم نے اطاعت کی۔۔۔

کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی؟؟؟؟ذہن کے پردے پہ نافرمانیوں کی لمبی فہرست آئی اور ہم نے یکدم جھرجھری سی لی۔۔۔اور پھر خود کو چپکے چپکے ٹٹولا کہ کیا ذرا سی بھی کوئی رمق نہیں پائی جاتی کہ ہم کہہ سکیں کہ واقعی ہم سمعناواطعنا کے عملی نمونے ہیں۔۔۔ارے مکمل نہ سہی جزوی سہی۔۔۔لیکن یہ کیا کہ دامن میں جیسے چھید سے نظرآئے۔۔۔کہیں ربِ رحیم سے گلے شکوے،کہیں نافرمانیاں،کہیں بداعمالیاں،غیبت ، حسد،غصہ،انا،نجانے کیسے کیسے گناہ منہ چڑاتے نظر آئے۔۔۔اور ہم نے گبھرا کر نظریں چُرائیں۔۔۔ایسے میں اللہ سبحان و تعالی کی طرف سے ایک راستہ کھلا، اپنے گھر سے قریب ہی فہم القرآن کے ایک ادارے کو جوائن کرلیا۔۔

طلب یہ تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر پڑھوں اور سمعناواطعنا کہنے والوں کی فہرست میں نام لکھوانے کے قابل ہوجاؤں۔۔میری خوش قسمتی کہیے کہ مجھے ادارے میں بہترین اساتذہ کرام ملیں جنھیں مجھ سے زیادہ میری فکر رہتی تھی، جو ہر لمحہ ہر طالبہ کو دین سے جوڑنے کی کوشش نہایت عمدہ اخلاق سے جاری رکھتی تھی۔ وہ اس قدر دل نشین انداز سے پڑھاتیں کہ لطف آجاتا۔۔۔۔

قرآن کلاس میں شریک ہونے کا سب سے بہترین فائدہ جو مجھے گزرتے وقت کے ساتھ ہوا وہ اس بات کا پتہ چلنا تھا کہ دنیا کی حیثیت اللہ کے نزدیک مردہ بکری کے بچے جتنی بھی نہیں۔ پہلے پہل ایسا سنا تو تھا لیکن اب اس حدیث کے مفہوم کی سمجھ آتی جارہی تھی۔

جتنا قرآن پاک سے جڑیں دنیاوی لذتیں اُتنی ہی ہیچ لگنے لگتی ہیں ، زندگی کی بے ثباتی پہ یقین گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔اور اپنے اخلاق اور روابط کی درستگی کی فکر دامن گیر رہنے لگتی ہے۔۔۔۔

اگرچہ میں اس قرآن کلاس سے بہت چھٹیاں کرتی تھی، باقاعدگی سے نہیں جاتی تھی کبھی کوئی مصروفیت اور کبھی نفس کی نازک مزاجی آڑے آجاتی لیکن واللہ یہ قرآن کا معجزہ ہی تھا کہ جس نے میرے دل کو ایسی نرمی عطا کی کہ میں نے صرف اللہ کی رضا کی خاطر اپنے دشمنوں سے بھی رابطے کئے، فون کیے کہ مجھ پہ قطع تعلقی کا بوجھ نہ آئے۔۔۔۔

سورۃ فاتحہ کی تفسیر خلاصہ قرآن ہے۔۔۔۔تو سورۃ البقرۃ کی تفسیر پڑھ کر انسانوں کی اقسام کا علم ہوا اور ساتھ ہی پشیمانی نے بھی گھیر لیا کہ ہائے اب تک غفلت کی چادر اوڑھے رکھی تھی ۔۔۔

بھانت بھانت کےلوگوں سے واسطہ پڑا لیکن کبھی کسی کی پہچان نہ ہوئی بس ظاہری حلیہ اور بظاہر کی جانے والی گفتگو سن کر اچھے برے کا فیصلہ کرتے رہے جبکہ رب سوہنے نے تو اپنی سچی کتاب کے آغاز میں ہی بتادیا کہ انسان کتنی اقسام کے ہوں گے اور ان کی نشانیاں کیا کیا ہوں گی۔۔۔

مزید آگے بڑھے تو بنی اسرائیل کے عبرت انگیز واقعات پڑھے۔۔۔ اُن پر اللہ کی عنائیتں، نوازشیں،رحمتیں،اور ان کا انکار،گناہ پر اصرار،ہٹ دھرمی لگاتار،اور بے خوفی نے جیسے جھنجھوڑ ڈالا۔۔۔شدت سے احساس ہوا کہ اللہ پاک نے یہ سب محض کہانی نہیں سنائی۔۔۔بلکہ عبرت دلائی ہے۔۔۔نصیحت کی ہے، ہمیں متنبہ کیا ہے کہ ہم باز آجائیں اپنی نافرمانیوں سے ورنہ بنی اسرائیل والا حال ہو گا اور عذاب کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے۔۔۔۔

جوں جوں آپ قرآن پاک میں غوطہ زن ہوتے جائیں گے آپ کے احساسات غیر محسوس طریقے سے بدلتے جائیں گے۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہتی کہ آپ یک دم عمل کے میدان کے شہسوار بن جائیں گے لیکن دل کا زنگ ضرور ہٹنے لگے گا۔۔۔اور ایک مزے کی بات یہ ہو گی کہ ہمارے ازلی دشمن شیطان کی نیندیں حرام ہونے لگیں گی۔۔۔کیونکہ قرآن پاک کا مطالعہ ہی تو ہمیں بتاتا ہے کہ شیطان مردود کے وار کس طرح کے ہوتے ہیں اور اُن سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔۔۔

قرآن پاک کی تفسیر پڑھنے سے حتی کہ صرف ترجمہ پڑھنے سے بھی دل کی دنیا میں ارتعاش آتا ہے اور دنیا کی وقعت ویسی نہیں رہتی جیسی پہلے تھی اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ دین کا شعور مزاج کو قابو میں رکھنے کا ہنر سکھاتا ہے۔۔۔برداشت بڑھ جاتی ہے اورہم غصے میں بھی مسکرا کر نظرانداز کرنے کا فن سیکھ لیتے ہیں۔۔۔کیونکہ جب عمل اللہ کے لیے خالص ہو جائیں تو صلے کی توقع بھی اللہ سے رہتی ہے اور انسان ہر حال میں پرسکون رہتا ہے۔۔۔یہ احساس طاری رہتا ہے کہ کوئی ہے جو تھامے ہوئے ہے، سنبھالے ہوئے ہے جو آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ اب عوام میں قرآن سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔۔۔ مدارس اور قرآن سینٹرز میں طلبہ و طالبات میں اضافہ ہو رہا ہے بالکل ویسے جیسے حجاب میں اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔لیکن ٹھہرئیے،

جائزہ لیجیے کیا عمل بھی تبدیل ہورہے ہیں؟ یا ہم خدانخواستہ بنی اسرائیل کی مانند ہوتے جا رہے ہیں جو سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی روش پہ قائم رہے اور باغی بن کر جہنم کا ایندھن بنے؟کیونکہ مفہوم حدیث ہے کہ “قیامت کے نزدیک علم بہت ہو گا بہت زیادہ عالم ہوں گے لیکن اس علم پر عمل نہ ہو گا۔”

آپ بھی اپنے قریب فہم قرآن کی ایسی ہی کوئی کلاس میں شرکت کریں، آپ اس سے ملنے والی لذت سے خود آشنا ہوجائیں گے۔ آپ کی زندگی پر اس کے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوں گے۔ سیکھنے کے بعد پھر خود کو ٹٹولتے رہیے کیونکہ جو سیکھنا ہے عمل میں لانا ہے۔۔۔۔۔اللہ پاک ہمیں “خیر امت” بنا دیں، ہم حقیقی معنوں میں اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق ڈھال لیں، با عمل مسلمان بن جائیں کیونکہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں