طارق حبیب کالم نگار

تمباکو طلبی مضر صحت ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طارق حبیب۔۔۔۔۔
"ایک سگریٹ ملے گی”
کولمبو ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی ایک صفائی والے نے مجھے سگریٹ سلگاتے دیکھا تو قریب آ کر مخاطب ہوا۔ میں نے پیکٹ اس کے سامنے کیا تو اس نے دو سگریٹ نکال لیں اور کہنے لگا:”ایک بعد کے لیے”۔

اس وقت تو میں مسکرا دیا مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سگریٹ مانگنے کے پس پردہ اصل کہانی کیا ہے۔

عادت کے مطابق گاڑی میں، میں نے سگریٹ جلائی تو ڈرائیور نے گاڑی سائیڈ پر روک دی۔ میں سمجھا کہ شاید کوئی پرابلم ہوئی ہے۔ میں اپنی سیٹ پر سکون سے بیٹھا سگریٹ پیتا رہا۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ ڈرائیور تو خاموشی سے گاڑی بند کر کے بیٹھ گیا ہے۔ میں نے پوچھا:
"گاڑی کیوں روکی ہے؟”
ڈرائیور صاحب نے کہا کہ آپ سگریٹ پی لیں، پھر گاڑی چلاتا ہوں۔ میں نے سگریٹ بجھاتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے بتا دیتے، میں سگریٹ پھینک دیتا۔ ڈرائیور صاحب پھر مسکرا دیے اور گاڑی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئی۔

ہوٹل پہنچے تو ڈرائیور میرے پاس آیا اور کہنے لگا ایک سگریٹ ملے گی، میں نے کہا:” ضرور، کیوں نہیں”۔ اور ڈرائیور صاحب نے بھی دو سگریٹ پیکٹ سے لے لیے۔ ہمیں ہمارے کمرے دکھائے گئے، جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو سامان لانے والے ویٹر کو ٹپ دینے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ "سگریٹ ملے گی”؟ میں نے کہا "کیوں نہیں”، اور سگریٹ کا پیکٹ اس کے سامنے کیا تو اس نے بھی دو سگریٹ نکال لیے۔

کمرے میں سامان رکھا اور عادت کے مطابق رات کی آوارگی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ ساحل پر دو سری لنکن باشندے ٹکرائے اور پوچھنے لگے کہ ان کے پاس مساج کی سہولت موجود ہے۔ جب انھیں آگاہ کیا کہ ہم تو خود یہی دھندہ ”مساج“ کا کرتے ہیں۔ بس جس کا ہم مساج کریں، پھر وہ سہلاتا ہی رہتا ہے مگر کسی پل اسے آرام نہیں آتا۔ انھیں اندازہ ہوگیا تو دونوں نے مساج کی آفر چھوڑ کر ایک ہی فرمائش کی "سگریٹ ملے گی”۔ ہم نے سگریٹ دے دیں۔

اگلے روز ‘جیو’ کے سلمان سعادت کے ساتھ آھونگالا کے بازار میں گھومتے ہوئے ایک دکان کے باہر بیٹھے فقیر نے بلایا اور پوچھا کہ "ایک سگریٹ ملے گی؟” تو اسے جو سگریٹ دی، وہ آخری تھی۔

میں سلمان سعادت بازار میں چائے کی پتی کی تلاش میں مصروف منظور علی اور سہیل خٹک کو چھوڑ کر سگریٹ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ جب ہم نے سگریٹ خریدی تو دکاندار نے کہا کہ 1300روپے دے دیں۔ ہم سمجھے کسی اور سے بات کر رہا ہے مگر جب اس نے دوبارہ ہماری جانب دیکھتے ہوئے کہا تو اندازہ ہوا وہ ہم سے ہی مخاطب ہے۔

غیر معیاری سگریٹ کا ایک پیکٹ 1300 روپے کا اور وہ بھی ایسا کہ دو کے بعد تیسرا سلگانے کا مطلب سگریٹ کے ساتھ اپنا دماغ سلگانا تھا۔ خیر ہم نے سگریٹ کا وہ پیکٹ رکھ لیا اور ہوٹل واپس آکر اپنے بیگ سے پاکستان سے لائے گئے کوٹے میں سے ایک پیکٹ نکالا اور لمبا کش لے کر نکوٹین کی کمی پوری کی۔ مگر ہمیں اندازہ ہوچکا تھا کہ سگریٹ طلبی کی بڑی وجہ ایک سگریٹ 65 روپے کا ہونا ہے۔

اگلے روز پھر ملائی والا ناریل چکھنے کے بعد جیسے ہی سگریٹ جلانے کی کوشش کی، ناریل والا پوچھنے لگا کہ "ایک سگریٹ ملے گا؟” اسے قریب جا کر نہایت پیار سے سمجھایا کہ۔۔۔۔
اب مجھے پتا لگ گیا ہے اس لئے
”تمباکو طلبی صحت کے لیے مضر ہے“
اور پھر یہ جملہ دورے کے دوران تکیہ کلام بنا رہا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں