دی لنچ باکس:ایک عام انسان کی خوشی اور غم کا امتزاج

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثمینہ رشید۔۔۔۔۔
"کبھی کبھی غلط ٹرین بھی آپ کو صحیح جگہ پہنچا دیتی ہے”
“دی لنچ باکس” مووی میں یہ جملہ کم از کم چار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

اگر آپ ایک دھیمی رفتار سے چلتی ٹرین میں بیٹھ کر ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں یا کسی سرمئی شام میں چائے کہ کپ کے ساتھ ایک بہت اچھی کتاب پڑھنے کے خواہشمند ہیں تو فلم “لنچ باکس” آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔

یہ کوئی فکشن، ایکشن یا میلو ڈرامہ نہیں بلکہ ایک خوبصورت ناول کی طرح ہے جس میں گنتی کے چند گنے چُنے کردار ہیں اور ہر کردار اپنی جگہ ایک کہانی ۔

کہانی سادہ بھی ہے اور رومانس کے ایک نئے جہت یا شاید پرانی اور بھولی ہوئی جہت کا عکاس بھی۔ ایک عام انسان کی زندگی کی طرح خوشی اور غم کا امتزاج ۔

ایلا ایک گھریلو عورت ہے جس کی شادی کو چند سال گزر چکے ہیں، ایک چھ سات سالہ بیٹی کی ماں ۔ اپنے شوہر کی بے توجہی کا شکار اپنی بے رنگ زندگی میں اپنے شوہر کی محبت حاصل کرنے کی خواہاں ہے ۔

پھر اس کے لئے وہ اپنی پڑوسن کے مشورے پر اپنے شوہر کو اس کے دفتر میں روز تازہ لنچ بنا کر بھیجنے کے لئے ممبئی کی ایک لنچ ڈلیوری سروس کو استعمال کرنے کا سوچتی ہے۔

کہانی میں نیا موڑ یہیں سے آتا ہے جب اس کا بنایا ہوا کھانا ڈلیوری سروس کی غلطی سے ایلا کے شوہر کے بجائے کسی اور کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

جب خالی لنچ باکس گھر پہنچتا ہے تو ایلا یہ سوچ کر خوش ہوجاتی ہے کہ جتنی محنت سے اس نے کھانا بنایا تھا اس کے شوہر کو یقیناً پسند آیا ہوگا تبھی لنچ باکس خالی ہے۔

لیکن رات کو شوہر سے پوچھنے پر شوہر قطعی مختلف ڈش کا نام لے کر ایلا سے کہتا ہے کہ “ہاں کھانا اچھا تھا”۔ تبھی ایلا کو احساس ہوتا ہے کہ اس کا کھانا یقیناً کسی اور کے پاس پہنچ گیا ہے۔

اگلے دن وہ لنچ باکس بھیجتے وقت اس میں ایک نوٹ لکھ کر بھیج دیتی ہے جس میں اس اجنبی شخص “عرفان خان (ساجن فرنانڈس) کو بتاتی ہے کہ کس طرح لنچ باکس غلطی سے اس کے شوہر کے بجائے اس کے پاس پہنچ گیا ۔ جواباً عرفان خان اسے اسی طرح کے نوٹ میں جواب بھیجتا ہے ۔

عرفان خان ایک سرکاری دفتر میں پینتیس سال سے ملازمت کر رہاہے ۔ اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ جلد قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ناسک (دوسرے شہر) شفٹ ہوجائے ۔

یہی موڑ اس کہانی کے انوکھے رومانس کی ابتدا ہے۔ ایلا آہستہ آہستہ اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ ، ازدواجی زندگی کے مسائل اور خوشی و غمی کے چھوٹے چھوٹے قصے شئیر کرنے لگتی ہے۔

لنچ باکس میں ایک نوٹ پر لکھ کر بھیجنے لگتی ہے اور جواباً عرفان خان بھی اس سے ایک جوابی خط کے ذریعے ماضی کی باتیں شئیر کرنے لگتا ہے۔

کہانی کے چند گنے چنے کرداروں میں ایلا کی ماں بھی شامل ہے جو اپنے بیمار شوہر اور غربت سے پریشان ہے لیکن بیٹی کو اپنے مسائل سے دور رکھنے کی خواہش مند، جس کا بیٹا اچھے نمبر آنے کی وجہ سے خودکشی کرچکا ہے ۔

ایلا سے دوستی فرنانڈس کی زندگی میں ایک جینے کی امنگ لاتی ہے اور وہ ریٹائرمنٹ نہ لینے کا سوچنے لگتا ہے۔

انہی دنوں ایلا پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے شوہر کا کسی اور کے ساتھ معاشقہ چل رہاہے، وہ مزید ٹوٹ جاتی ہے۔ اور ایک دن نوٹ میں لکھ کر بھیجتی ہے کہ ایک نئی بات پتہ چلی ہے کہ بھوٹان میں لوگ بہت خوش رہتے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ بیٹی کو لے کر وہاں چلی جاؤں۔

جواباً فرنانڈس اس کو دو لائن کی عبارت بھیجتا ہے کہ ہم سب ساتھ مل کر بھی بھوٹان جا سکتے ہیں۔ جس کے بعد ایلا اسے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں لنچ پر ملنے کے لئے بلاتی ہے۔

اس دعوت پر وہ چلا تو جاتا ہے لیکن ریسٹورنٹ کے ایک کونے پر بیٹھ کر صرف ایک کو دیکھ کر اپنے اور اس کے درمیان کے عمر کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے ملے بغیر لوٹ آتا ہے۔

دوسرے دن خالی لنچ باکس بھیج کر ایلا اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے اور وہ معذرت کا نوٹ لکھ کر حقیقت بتاتا ہے کہ وہ آخر اس سے کیوں نہیں ملا۔ اور ساتھ ہی اپنے ریٹائرمنٹ کو واپس لینے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔

کہانی کا ایک کردار شیخ یعنی نوازالدین صدیقی کا ہے ۔ مختصر کردار کے باوجود نواز الدین کی اداکاری ہمیشہ کی طرح جاندار ہے ۔ شیخ جو اس دوران عرفان خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پروموٹ ہوکر اس کی سیٹ پر آنے کا خواہاں ہے اور عرفان خان کے انتہائی سرد مہر روئیے کے باوجود آہستہ آہستہ اس کے قریب آجاتا ہے۔

شیخ دنیا میں بالکل اکیلا ہے اور اس کی شادی کی رکاوٹ، لڑکی کا باپ آخر کار شیخ کی متوقع ترقی کا سن کر اس کی اور اپنی بیٹی کی شادی پر راضی ہوجاتا ہے ۔شیخ کی درخواست پر مسٹر فرنانڈس اس کی شادی کے واحد باراتی اور سرپرست کی حیثیت سے شامل ہوتے ہیں اور وہی فرنانڈس کا اس کی جاب پر بھی آخری دن ہوتا ہے۔

اس تقریب کے اگلے ہی روز ایلا ٹفن سروس والوں کی مدد لے کر فرنانڈس کو ڈھونڈتی ہوئی دفتر پہنچتی ہے اور شیخ اسے بتاتا ہے کہ وہ ایک دن پہلے ہی جاب چھوڑ چکا ہے اور شاید اس وقت ناسک جانے کے لئے نکل چکا ہوگا۔

یہ سن کر ایلا بہت مایوس ہوکر لوٹتی ہے اور اپنے سارے قیمتی زیورات بیچ کر پیسے گھر لے آتی ہے ۔ اس کا ارادہ ہوتا ہے کہ اگلے ہی دن بیٹی کے اسکول سے آتے ہی وہ بمبئی سے بھوٹان کے لئے روانہ ہوجائے گی۔

فرنانڈس ناسک جانے کے لئے ٹرین میں بیٹھتا ہے اور پھر ارادہ بدل کر ٹرین سے اتر آتا ہے۔ اور اگلی ہی صبح ٹفن سروس والوں کی مدد لیتا ہے اور ان کی اس وین میں بیٹھ جاتا ہے جو ایلا کے گھر سے ٹفن لے کر اسے پہنچاتی تھی تاکہ ایلا کے گھر پہنچ سکے جہاں وہ اپنی بیٹی کے اسکول سے چھٹی کے بعد بھوٹان جانے کا ارادہ کرچکی ہے۔

کہانی بس یہاں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس کے ادھورے پن کا احساس نہیں ہوتا اگر آپ واقعی لکھنے والے کے ذہن سے اس انوکھے رومانس کو محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ایک لنچ باکس نوٹ سے شروع ہونے والی ایک کہانی دونوں کرداروں کو ایک ایسے موڑ پر لے آتی ہے جہاں ایک غلط ٹرین انہیں صحیح جگہ تک پہنچا دیتی ہے۔

فلم کی کہانی آپ کے دل کو چھو جاتی ہے۔ دونوں مرکزی کرداروں کو آپ ان کے لکھے گئے نوٹس سے پہچانتے اور سمجھتے ہیں گو کہ دونوں کرداروں نے اپنی اداکاری سے انصاف کیا ہے لیکن عرفان خان کی اداکاری انتہائی متاثر کن ہے۔

فلم کا خاموش ترین کردار۔ ایلا یعنی نمرتا کور کا کردار ایلف شفق کے ناول “فورٹی رولز آف لو” کے کردار ایلا سے کافی ملتا جلتا لگتا ہے۔ جنہوں نے ایلف کا ناول پڑھا ہے وہ اس کی مماثلت کو شاید محسوس کرسکیں۔

ڈائریکٹر نے کہانی کو دل سے سمجھا ، محسوس کیا اور بنایا ہے اس لئے فلم آپ کو اپنی مکمل گرفت میں لیتی ہے۔ یہ کوئی روایتی فلم نہیں یہ ان فلموں میں سے ہے جو سالوں میں کبھی کبھی بنتی ہیں ۔

فلم “ دی لنچ باکس” کو سب سے پہلے کانز فلم فیسٹیول میں پیش کیا گیا جہاں تقریباً پندرہ منٹ تک اسے “standing ovation” دیا گیا۔ اس فیسٹیول کے چند ماہ بعد اس فلم کو جب ستمبر دوہزار تیرہ میں ریلیز کیا گیا اس وقت اسے باکس آفس پر بھی بے حد کامیابی ملی۔

صرف بائیس کروڑ کے بجٹ میں بننے والی اس فلم نے سو کروڑ سے زائد کا بزنس کیا ۔
فلم کو برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈ کے لئے “دوسری زبان میں بننے والی فلم” کی کیٹیگری میں ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں