وزیراعظم عمران خان، جنرل قمرجاوید باجوہ

مقتدرحلقے مشکل میں پڑگئے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔
آئی ایم آیف معاہدہ کی تفصیلات منظرعام پر آنے کے بعد ملکی معیشت کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی روپیہ مزید سستا ہوگیا، ڈالرایک روپیہ مزید مہنگاہوگیا،حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ جو بھی مشکل فیصلے کررہے ہیں، عوام انھیں کچھ نہیں کہے گی۔چند روز پہلے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہاتھا:‘‘قوم 2 سو روپے لیٹر پٹرول بھی برداشت کر لے گی’’۔

یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو حکومتوں کا دھڑن تختہ کردیتی ہے ۔ ایسی حکومتوں کے خلاف اپوزیشن گروہوں کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

ان دنوں سٹاک مارکیٹ میں ایسی شدیدمندی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ پاکستانی تاریخ‌میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔ سرمایہ کاروں کے ایک کھرب 81 ارب روپے ڈوب گئے۔ سرمایہ کار فٹافٹ اپنے شئیرز فروخت کررہے ہیں، کیونکہ انھیں محسوس ہورہاہے کہ آنے والے دن بہت برے ہیں ، کچھ بھی اچھا نہیں ہونے والا۔ حکومت سے کچھ بھی نہیں سنبھل رہا۔

اس تناظرمیں باخبرحلقے چند خبریں دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے تقریبا نو ماہ بیت چکے ہیں اور یہ عرصہ تخلیق میں بڑی اہمیت رکھتا ہے مگر ان نو ماہ میں جنم لینے والی لاغر معیشت نے مقتدر حلقوں کو بھی الجھا دیا ہے۔

صحافی عاصمہ شیرازی کے بقول ‘‘گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی ہو یا مشیرِ خزانہ کی تقرری، معاملات کلی طور پر کسی اور ہاتھ جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’کور گروپ` میں پہلے ہی بے چینی بغاوت میں بدل رہی ہے کہ حکومتی اور جماعتی اختیار غیر منتخب اور خصوصاً پی ٹی آئی سے غیر متعلقہ افراد کے پاس ہے’’۔

وزیراعظم عمران خان ابھی تک سمجھتے ہیں کہ وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔ ان کی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑی جونئیر بھی تھے اور ٹیم میں جگہ قائم رکھنے کے لئے کپتان کی چاپلوسی کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن اب عمران خان کا واسطہ ایسی ٹیم سے پڑا ہے جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے سیاستدانوں پر مشتمل ہے، وہ بڑے بڑوں کو بیچ کر کھاجاتے ہیں، عمران خان ان کے لئے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتے۔

ان کی ٹیم میں شامل بہت سے سیاست دانوں میں سے بہت سے بجٹ کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار پارلیمان کے پلیٹ فارم پر کر سکتے ہیں۔ انھیں اپنی سیاست بچانا ہے، اگلے عام انتخابات میں عوام کو منہ دکھاناہے، وہ مشکل فیصلوں کا دفاع کیوں کر کریں‌گے۔

تحریک انصاف کے اندر کا حال یہ ہے کہ ‘‘انصافی وزیراعظم کو گھیر رہے ہیں کہ اگر عوام ناراض ہوئے تو ان کا سیاست کرنا دوبھر ہو گا اور بات ’ورنہ` تک جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر کے لوگ اسد عمر کے گھر بھجوائے جانے سے بھی سخت خفا ہیں۔ دوسری جانب بلاول کی جارحانہ سیاست اور مریم کا ایک بار پھر بے باک انداز میں سیاسی آغاز انصافی حلقوں میں پریشانی کا سبب بن رہا ہے’’۔

‘‘حکومت کے خلاف ہلکی پھلکی موسیقی عید کے بعد اپوزیشن کی ایک منظم تحریک میں بدل سکتی ہے۔۔۔ ایسے میں اگر مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات ہو گئی تو حالات کافی حد تک تبدیل ہوں گے’’۔ البتہ انصافی سوشل میڈیا پر مریم اور بلاول کے بارے میں بے ہودہ پوسٹیں ہی کرتے رہ جائیں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں