Farishta, 10-year old girl who was raped and murdered

درندوں کے معاشرے میں بیٹیاں کیسے محفوظ ہوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے تاریخی شہر قصور کی زینب کے ریپ اور قتل کے بعد، اب تک ایک سال پانچ ماہ کے دوران میں، مزید 200 زینبیں اسی درندگی سے دوچار ہوئیں، آخری زینب اسلام آباد کی "فرشتہ” تھی۔

یہ بڑی بے حسی ہوگی اگر میں آپ سے نہ کہوں کہ آپ تصور کریں زینب اور فرشتہ کیسے گھر سے نکلیں، پھر کیسے وہ درندوں کے ہاتھ چڑھیں، اس کے بعد ان کے ساتھ کیا کچھ بیتا ہوگا، وہ کیسے چیخی چلائی ہوں گی، انھوں نے کیسے اپنے ماں، باپ کو پکارا ہوگا اور پھر وہ کیسے دردناک انداز میں موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہوں گی۔

ہمیں ان کیفیات کو محسوس کرنا ہوگا، سارے مناظر کو چشم تصور سے دیکھنا ہوگا، شاید اس کے بعد ہم بھی کچھ سبق حاصل کریں، اپنی زینبوں کو، اپنی فرشتوں کو، اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرنے کے لئے کچھ فیصلے کریں۔

میں اپنے ملک اور معاشرے کے بارے میں اب کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ یہ درندوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں بیٹیوں کو گھروں سے باہر نکالنے پر ہمیں ترغیب ہی نہیں دی جاتی بلکہ ایسا کرنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے، دوسری طرف یہی ترغیب دینے والے دردندوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور وہ درندے درندگی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

حکومتیں، عدالتیں، سیکورٹی فورسز اور ریاست کے باقی تمام ستون زینبوں کو بچانے والوں کے بجائے انھیں قتل کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں، انھیں اپنی پناہ میں لیتے ہیں۔ یہ بھی کیسی وحشت اور بہیمیت ہے کہ حکمران پی ٹی آئی والے فرشتہ کے زخمی باپ سے تعزیت کرنے، اسے انصاف کا یقین دلانے، درندوں کو پکڑنے کے بجائے سارا زور اس بات پر لگارہے ہیں کہ فرشتہ کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے نہیں، افغانستان سے تھا اور اس کا خاندان یہاں غیرقانونی طور پر رہ رہا تھا۔

اولاً یہ خاندان پاکستانی ہی ہے، ثانیاً وہ افغانی بھی ہو تو کیا اس کی بچیوں کے ساتھ ریپ اور قتل کردیناچاہئے؟ یہ ہیں وہ لوگ جو ہم پر مسلط ہیں ،ان میں اور جنگل کے درندوں میں‌ بھلا کیا فرق رہ جاتا ہے؟

تحریک انصاف ہی کے انٹیلی جنس سیل نے یہ بھی پتہ چلالیا ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ والوں یہ کارروائی کی ہے تاکہ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا جائے۔ کیسی بچگانہ خرکتیں کرتے ہیں یہ لوگ!! اللہ کی پناہ

اب سوال یہ ہے کہ دردندوں کے اس معاشرے میں ہم اپنی زینبوں کی حفاظت کیسے کریں؟ حفاظت تو کرنی ہی ہے،انھیں درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نہیں سکتے، اس سلسلہ میں کچھ تجاویز ہیں:

ہمیں اپنے بچوں کو اب ہرگز گھر سے باہر نہیں نکالنا چاہئے، حتیٰ کہ انھیں سکول بھی نہیں بھیجنا چاہئے، اگر ہم ان کی حفاظت کا انتظام نہیں کرسکتے۔ یادرہے کہ قصور کی زینب تنہا سپارہ پڑھنے جارہی تھی اور اسلام آباد کی فرشتہ کچھ سامان خریدنے گھر سے باہر نکلی تھی۔

بالخصوص بچیوں کو اس وقت تک گھر سے باہر نہیں نکالنا چاہئے حتیٰ کہ وہ جوان ہوجائیں، ان کی شادی کا دن آن پہنچے۔

یقینا ایسے والدین کو ہمارے معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ دقیانوسی قرار دے گا، بیٹیوں کو قید میں رکھنے کا طعنہ دے گا،عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنے کا مطالبہ کرے گا، انھیں خودمختاربنانے اور روزگار فراہم کرنے کی ترغیب دے گا لیکن یاد رکھئے گا کہ یہی درندے ہیں، یہی لوگ ہماری بیٹیوں کی عزت اور جان کے درپے ہیں۔

ہمیں پتھر کا دور زیادہ عزیز ہے بہ نسبت اس جدید دور کے۔ کم ازکم پتھر کے دور میں بیٹیاں درندوں کے ہتھے نہیں چڑھتی تھیں۔ لہذا اگر کوئی بالخصوص سیاست دان بچیوں کو گھر سے باہر نکالنے کی بات کرے، اسے ایسی عبرت ناک سزا دیں کہ آنے والی ساری نسلیں بھی ایسی جرات نہ کرسکیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “درندوں کے معاشرے میں بیٹیاں کیسے محفوظ ہوں؟”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    اتنا تکلیف دہ موضوع ھے کہ اس پرلکھنے کے لئے بہت حوصلہ چاہئے۔ آپ کی تجاویز بہت اچھی ہیں صرف بیٹیوں کو ہی نہیں بلکہ بیٹوں کو بھی جب تک کہ اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ھو جائیں اکیلےگھر سے باہر نہیں نکلنے دینا چاہئے۔ خواہ کیسی ہی ایمرجنسی کیوں نہ ھو بچوں کو باہر نہیں بھیجنا چاہئے۔