اعزازسید۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں جمہوریت آتی جاتی رہتی ہے اس لیے ہر دوسرا روز قومی تماشوں سے بھرپور ہوتا ہے لیکن رواں ماہ جون میں ہونے والے 5اہم واقعات ملک کے آئندہ سیاسی مستقبل پر اہم اثرات مرتب کرنے جا رہے ہیں۔
یہ 5واقعات کیا ہوں گے اور ان کے ملک کے مستقبل پر کیا مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ اسی خاکے میں رنگ بھرنے کی سعی کررہا ہوں۔
عید کے روز شائع ہونے والے کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ زمینی حقائق اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ رواں ماہِ جون میں اہم نوعیت کی سیاسی گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ اہم رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔آصف علی زرداری کے بارے میں جعلی اکائونٹس کیس سے جڑے کم ازکم دو مختلف ریفرنسز پر چیئرمین نیب دستخط کر چکے ہیں لیکن زرداری صاحب اہم لوگوں سے بھی رابطے میں ہیں۔
کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک اہم ترین شخصیت سے ان کے گھر جاکرملاقات کی تھی، ظاہر ہے ان کی سرتوڑ کوشش یہی ہے کہ وہ ماضی کی طرح دوبارہ جیل جانے سے بچے رہیں، تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ شاید ابھی تک کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو سکی۔ادھر بلاول بھٹو زرداری بلا خوف جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے ایسے موضوعات پر بول رہے ہیں جو پسند نہیں کیے جاتے۔
شاید اسی جعلی اکائونٹس کیس کے ذریعے بلاول کو ڈرانے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر وہ ابھی تک سربکف ہی نظر آرہے ہیں۔ بلاول کا لہجہ بتا رہا ہے کہ فی الحال کوئی ڈیل نہیں ہے۔ (ن) لیگ کی بڑی سے بڑی گرفتاریاں قومی منظر نامے پر اتنا اثر نہیں ڈالتیں جتنا پیپلز پارٹی کی گرفتاریاں ڈالیں گی۔
وجہ بڑی واضح ہے کہ (ن) لیگ نے ابھی تک اپوزیشن سیکھی نہیں جبکہ پیپلز پارٹی کو حکومت سے زیادہ مہارت اپوزیشن کرنے میں ہے۔ اس ماحول میں کچھ لوگ نیک نیتی سے آصف علی زرداری کو گرفتاری سے بچانے کیلئے بھی کوشاں ہیں مگر تادمِ تحریر ان کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔
ایک خیال یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کی صورت میں اپوزیشن بجٹ پر توجہ دینے کے بجائے گرفتاریوں کا واویلا مچائے گی اور حکومت بجٹ میں مہنگائی کے نئے طوفان پر تنقید سے صاف بچ جائے گی۔
جون کے مہینے میں دوسرا اہم واقعہ بجٹ کی صورت میں رونما ہونے جارہا ہے۔ بجٹ کے اندر نئے ٹیکسز کی صورت میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کا منتظر ہے۔ مہنگائی نے پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کو چارج شیٹ اور مذاق میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایسا نہیں کہ حکومت بھی پرسکون ہے، میری اطلاع کے مطابق حکومت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں بجٹ پیش ہونے کے بعد اسکے چند اتحادی عین موقع پر اس کا ساتھ نہ چھوڑ جائیں۔ جس کے باعث قومی اسمبلی سے بجٹ منظور نہ ہوا تو یہ حکومت کی شرمندگی ہی نہیں رخصت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
یہ حکومت کا خوف نہیں تو اور کیا ہے کہ پچھلے دنوں ایک سول ادارے نے اس بارے میں ایک خفیہ سروے بھی کیا۔ نجانے اس کا نتیجہ کیا ہے لیکن ایسا ہوا ضرور ہے۔ اس عمل میں ڈر صرف اپوزیشن کا ہی ہے، کسی اور کا نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل 14جون کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنسز کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اہم سماعت کرے گی۔
کیس کیلئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کیا جا چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شروع دن سے نشانے پر ہیں۔ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، کوئی نہیں جانتا لیکن ریفرنس مسترد ہونے کی صورت میں حکومت کی سبکی ہوگی اور اگر ریفرنس کی سماعت شروع ہوگئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اہم کردار کی طرح قومی منظرنامے پر رونما ہوں گے۔
سیاسی جماعتیں ، میڈیا ، سول سوسائٹی غرضیکہ حکومت سے ناراض کم و بیش تمام طبقے قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ہوں گے۔ دونوں صورتیں حکومت کیلئے اچھا شگون نہیں، ہاں! پیچھے ہٹ جانا ایک آپشن ضرور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس روز پنڈورا باکس سے کیا نکلتا ہے؟
بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کو 19مئی کی افطار ڈنر دعوت میں اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس طلب کریں گے۔
مہنگائی آلود بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا تو آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے خوب لتے لیے جائیں گے اور اگر سیاسی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں تو اپوزیشن کیلئے یہ سونے پہ سہاگے جیسا کام ہوگا۔
یہ کانفرنس ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کے معزز جج قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کا اعلان بھی کرے گی۔ مگر شاید عوام کو فوری سڑکوں پر آنے کا اشارہ نہ دیا جائے۔
رواں ماہ 16سے 21جون کو امریکہ میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا ایک جائزہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں اپریل میں پاکستان کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائیگا۔
اجلاس پاکستان کیلئے ایک ہی صورت مثبت ہوگا کہ اس کے شرکا پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے بارے میں پیش کردہ رپورٹ کو تسلیم کر لیں یا زیادہ سے زیادہ کچھ نکات پر مزید کام کی ہدایت دے دیں۔
ٹاسک فورس کے ارکان نے خدانخواستہ پاکستان کی کارکردگی رپورٹ کو مسترد کردیا تو ستمبر میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی بات واضح ہو جائے گی۔جون کے مہینے میں اہم نوعیت کے واقعات اس بات کا پتا دیں گے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں۔
جون کا کیلنڈر نکال لیں اور نظریں حالات پر رکھیں، حالات بتا رہے ہیں کہ جون میں ہونیوالی گھڑیوں کی ٹک ٹک آئندہ آنے والے دنوں میں صورتحال بدلے گی۔