قاری حنیف ڈار۔۔۔۔۔
پہلی بیوی اور پہلی گاڑی عموماً تجربہ حاصل کرنے کے کام آتی ہیں۔ پہلی گاڑی مزدا 1979 بھی ہو تو پجارو 2016 لگتی ھے۔ اسٹئرنگ دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوتا ہے اور نظر سامنے سڑک پر ہوتی ہے ، پھر جوں جوں تجربے کار ہوتا ہے تو توجہ ڈرائیونگ سے ہٹ کر ساتھ سے گزرنے والی گاڑیوں کی طرف ہوتی جاتی ہے، اسٹیئرنگ بھی ایک ہاتھ کے تابع ہوجاتا ہے۔ ڈینٹ سارے پہلی گاڑی کو پڑتے ہیں اور جب گاڑی چلانے کا سلیقہ آتا ہے تو نئی آ جاتی ہے۔
اسی طرح پہلی بیوی جیسی بھی ہو ہیر ہی لگتی ہے اور پانچ دس سال نظر اسی سے نہیں ہٹتی۔ ہماری ساری بیوقوفیاں، نفسیاتی اور جذباتی حماقتیں پہلی بیوی برداشت کرتی ہے اور ہماری کوچنگ کرتی ہے۔ بچت کرتی ہے اور ہمیں مالی طور پر پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتی ہے۔
جب ہمیں بیوی رکھنے کا سلیقہ آتا ہے تو سوچتے ہیں کہ یہ بھی کوئی رکھنے کی چیزہے؟ یہ بالکل وہی رویہ ہے جو پاکستانیوں کے ساتھ گلف میں ہوتا ہے کہ ان کو ایک فلپینا لا کردیا جاتا ہے کہ اس کو سکھاؤ ، اور جس دن وہ سیکھ جاتا ہے اس دن فراغت کا نوٹس پاکستانی کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔
جب تک سمجھ لگتی تین چار بچے پیدا ھو جاتے ہے اور چخ چخ میں عمر کے پچاس سال گزر جاتے ہیں ،22 یا 23 سال میں شادی کر لینے والوں کے بچے باپ کے برابر پہنچ جاتے ہیں اور بیوی ایزی ہوجاتی ہے جبکہ یہی وقت آنکھیں کھولنے کا ہوتا ہے۔
وہ شوھر کو گھر کی مرغی سمجھتی ہے جبکہ وہ محلے کا مرغا ہوتا ہے۔ عین جس وقت عورت بچوں کی فکر میں غرق ہوتی ہے ، اپنے آپ سے بھی غافل ہو جاتی ہے، اسی دوران شوہر پر دوسری شادی کا دورہ پڑتا ہے۔
یہ دورہ 40 سے 50 سال کی عمر کے دوران پاگل پن کی حد تک ہوتا ہےاور اس کو ” Over Forty Syndrome کہتے ہیں۔ جس میں مرد 90 فیصد پلاننگ کرکے پھرکسی نہ کسی وجہ سے رہ جاتا ہے۔ 99 فیصد مرد دوسری شادی کا سوچتے ہیں اور باقی ایک فیصد جھوٹ بولتے ہیں۔
ہر مرد میں ایک شاہد آفریدی چھپا ہوتا ہے جو آخری اوورز میں اترنے اور خود کش چھکے مارنے کو بیتاب ہوتا ہے۔ شوہر کا مالی استحکام عورت کے حق میں مائنس پوائنٹ ہوتا ہے۔
جبکہ بچوں کے لئے مکان بن چکے ہوتے، بچے گریجویشن کے قریب ہوتے ہیں۔ عورت یوں سمجھتی ہے کہ منزل قریب ہے جبکہ شوہر فرنٹ سیٹ پر دوسری سواری بٹھانے کے چکر میں ہوتا ہے۔ بیوی بچوں کے رشتے دیکھ رہی ہوتی ہے اور شوہر اپنے لئے ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔
جس مرد کو گھر والی ایزی لے رہی ہوتی ہے اس کو جب باہر سے توجہ ملتی ہے تو وہ بھی اپنے آپ کو سیف الملوک سمجھتا ہے اور اسی چکر میں قدرت اپنا کھیل کھیلتی ہے اور اپنا آپ یاد کرواتی ہے یا تو ہارٹ اٹیک آن پہنچتا ہے اور یا پھر فالج۔ پھر سے وہی مرد اپنے ہمسفر کے پاس آن پہنچتا ہے کیوں کہ جوان اولاد کے پاس ہمیشہ سے وقت کی کمی ہی رہتی ہے۔