الطاف حسین، بانی ایم کیوایم خطاب کرتے ہوئے

عزیزآباد کا پیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل۔۔۔۔۔۔۔
’’قائدے تحریک، الطاف حسین‘‘۔ کہیں کہیں لکھنے والے نے اس کلمے کی ترتیب بدل ڈالی اور لکھا:’’تحریکے قائد۔۔۔‘‘ تحریر سے لکھنے والے کی ذہنی سطح اور ذوق کا اندازہ خوب ہوتا تھا ، برش پکڑنے کا سلیقہ اور نہ روشنائی کے استعمال کاقرینہ،کہیں قائد کے ’’ق‘‘ کی رال ٹپکنے لگتی اور کہیں تحریک کی ’’ک‘‘بے وزن ہوجاتی۔

یہ چاکنگ میں نے دیکھی تو سوچا کہ جو لوگ اس قدر پھوہڑ ہوں،کیسی ہوگی ان کی تحریک اور کیا کرے گا ان کا قائد؟لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد میری رائے بدل گئی۔جانے کیا سبب رہا ہوگا کہ برادرم اقبال پاریکھ کے ساتھ "سسپنس ڈائجسٹ” کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ ایڈیٹر سے لے کر کاتب اور کاتب سے لے کر نائب قاصد تک ہر زبان پرایک ہی نام کی تسبیح جاری تھی اور یہ نام وہی تھا جسے میں نے کراچی کی سڑکوں پر دیکھ کرتقریباًنظر انداز کردیاتھا۔

ایڈیٹر صاحب کے خیالات کو اختصار کے کوزے میں بند کیا جائے تو یوں ہوگا کہ آگیا وہ شاہ کار جس کا انتظار تھا۔’’گویا نرگس کی بے نوری ختم ہوئی؟‘‘۔میں نے بات آگے بڑھائی تو میزبان بدمزہ ہوئے،

اقبالؒ کابالواسطہ ذکربھی انھیں خوش نہ آیا، میری بات تقریباً کاٹ کر کہنے لگے کہ یہی شخص ہے جو مہاجروں کے دکھوں کا مداوا کرے گا۔ایڈیٹر صاحب سے مل کر ہم ادارے کے سربراہ کے ہاں گئے،اْن کے یہاں بھی یہی موضوع زیر بحث تھا، انھوں نے اپنی بات ایک مثال کے ذریعے واضح کی، کہا کہ الطاف حسین دوسرے بھٹو ہیں۔

یہ اس زمانے کی بات ہے ، الطاف حسین جب تازہ تازہ امریکا سے لوٹے تھے اور ان کے چاہنے والوں نے ان کا ایسا پرجوش استقبال کیاتھا، عام حالات میں جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ چند ہی روز کے بعد نشتر پارک میں ایک جلسہ ہوا،نشتر پارک لاہور کے موچی دروازے کی طرح کراچی کی معروف جلسہ گاہ ہے،بزرگ صحافی کہا کرتے کہ جس جماعت نے یہ پارک بھر لیا،سمجھ لووہ کامیاب ہوگئی اور یہ جلسہ ایسا ہی تھاجس نے ایک نوزائیدہ جماعت اور اس کے رہنما کا بیڑا پار لگا دیا تھا۔

الطاف حسین کو ن تھے اور کیا چاہتے تھے ؟ یہ کوئی معمہ نہیں تھا کیوں کہ سندھ میں دیہی اور شہری تقسیم کے اثرات کی گہرائی لوگوں کی رگ وپے میں سرایت کر چکی تھی۔الطاف حسین وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس تقسیم کے سبب اردو بولنے والوں کی محرومی کو جارحانہ زبان عطا کی لیکن یہ بھی ایک عجب اتفاق ہے کہ پرانے سندھیوں سے شکایت رکھنے اور اس بنا پر مقبولیت حاصل کرنیوالے اس رہنمانے نشتر پارک میں پہلی بار زباں کھولی تواہلِ پنجاب کو مطعون کیا،

ان کے بعد پشتو، سندھی پھر دیگر زبانیں بولنے والوں کی باری آئی۔ اس طرح اردو بولنے والوں کی پاکستان کی تقریباً تمام لسانی اکائیوں کے ساتھ تصادم کی صورت حال پیدا کردی گئی۔ وہ بھی کیا اتفاق تھا کہ دوران تقریر نشتر پارک کے اوپر سے ایک طیارے کا گزر ہواجسے دیکھ کر مقرر کے جسم میں جیسے بجلی بھر گئی ،

اس نے تڑپ کر آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیاکہ جانتے ہو یہ طیارہ کس کا ہے ؟اہل جلسہ نے جواب دیا کہ پی آئی اے کا،جس پر انھوں نے کہا کہ ہے تو یہ پی آئی اے کا لیکن یہ پی پاکستان کی نہیں پنجاب کی ہے۔ یہی جلسہ تھا جس میں الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کو ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچ کر اسلحہ خریدنے کا مشورہ دیا تھا۔

الطاف حسین اب مہاجروں کے بلاشرکتِ غیرے قائد اور مہاجر قومی موومنٹ کے قائد تحریک تھے۔کراچی میں مقبولیت کا جھنڈا گاڑنے کے بعدان کی اگلی منزل حیدرآباد تھی۔ وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر کیلئے عازم ِ سفر ہوئے تو شہر کے مقام ِ خروج یعنی سہراب گوٹھ پر ایک سانحہ ہوگیا۔

اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جس پر انھیں کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔یہ گرفتاری اس اعتبار سے یاد گارثابت ہوئی کہ پولیس کی تفتیش سے کھلا کہ وہ تو اس جماعت کے چار آنے کے ممبر بھی نہیں جس کا انھیں قائد کہا جاتا ہے۔

اپنے بیان میں انھوں نے انکشاف کیا کہ میں ایم کیو ایم کا ممبر نہیں ہوں،ساتھی مجھے بوجہ محبت قائد تحریک کہہ لیا کرتے ہیں۔اس دعوے میں الطاف حسین کچھ ایسے غلط بھی نہ تھے۔ ایم کیوایم کے(پہلے اور آخری) چیئرمین عظیم احمد طارق مرحوم نے ایک بار بتایا کہ 80ء کی دہائی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف طلبہ کے درمیان کام کرنے سے اْن مقاصد کا حصول ممکن نہیں جن کیلئے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم کی گئی تھی ،لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ اب زندگی کے دیگر شعبوں ، خاص طور پر قومی سیاست میں بھی حصہ لینا چاہیے،

چنانچہ مہاجر قومی موومنٹ قائم کردی گئی۔عہدے داروں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو الطاف حسین یاد آئے جو ان دنوں امریکا میں مقیم تھے،انھیں ایم کیوایم کے قیام کی اطلاع دی گئی اور دریافت کیا گیا کہ جدو جہد کے اس مرحلے پر ان کی شرکت کب تک متوقع ہوگی؟

الطاف حسین نے بتایا کہ وہ اب امریکا میں مستقل قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوں ان کے بغیر ہی انتخاب عمل میں آگیا لیکن ٹھیک دو برس کے بعدجب وہ پاکستان واپس آگئے تو سوال پیدا ہوا کہ اب انھیں کیسے کھپایا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد تجویز سامنے آئی کہ قائد کا منصب ان کے شایانِ شان رہے گا اور جماعت میں ان کی حیثیت وہی ہوگی جو کانگریس میں گاندھی جی کی تھی۔

کانگریس نے گاندھی کو عزت دی تو انھوں نے بزرگ بن کر دکھایا ،کانگریس کے تنظیمی معاملات سے کوئی واسطہ نہ رکھالیکن الطاف حسین کا معاملہ جداتھا ،وہ قائدبنے تو گویا تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں آگئے اور ان کے مقابلے میں کسی کا چراغ نہ جل سکا،سوائے عظیم احمد طارق کے اور وہ بھی کسی قدر لیکن جب ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا تو اس کے بعد کوئی بھی ایسا نہ رہاجو الطاف حسین کی ہم سری کا دعویٰ کرسکتا۔

ایم کیو ایم کا جھنڈا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اْس پر کوئی علامت بنانے کی بجائے ایک لفظ لکھا گیا: ’’مہاجر‘‘ لیکن جب آفاق احمد نے بغاوت کر کے اپنا دھڑا علیحدہ کر لیااور اپنی شناخت کے لیے اْسی جھنڈے کو منتخب کیاتو الطاف حسین کے جذبۂ محبت نے ایک بار پھر جوش مارا اور اْن کی خواہش پر ایم کیو ایم کے جھنڈے پر اپنا نام لکھنے کا حکم دیا۔یوں ایک نیا عالمی ریکارڈ وجود میں آیا اورایم کیو ایم اپنے جھنڈے پر بانی کا نام رقم کرنے والی دنیا کی پہلی سیاسی جماعت بن گئی۔

پیر صاحب نے اس زمانے میں کسی کام کو عار نہیں جانا حتیٰ کہ ماڈلنگ کو بھی عزت بخشی۔ ماڈلنگ کے لیے بنائی گئی تصویروں میں وہ اکثر سوٹ اور ٹائی میں مسکراتے ہوئے نظر آتے،ان تصویروں کے لیے ’’ مسٹر مہاجر‘‘ کا عنوان منتخب کیا گیا۔

یہ الفاظ تصویر کے آخر یعنی مسٹر مہاجر کے پائوں کے بالکل نیچے درج کیے جاتے۔الطاف حسین کی سیاست کے اس کلیدی لفظ کے لیے جگہ کا انتخاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ وہ اپنی تقریر میں اس لفظ کی مذہبی تقدیس کا ذکر کرکے اپنے مہاجر فلسفے کی حقانیت کا اظہار کیا کرتے۔ اس طرح کی ایک شان دار تصویر کراچی میں طارق روڈ کے ایک پرانے شاپنگ مال گلیمر ون کے صدر دروازے پر مدتوں نظر آتی رہی۔

ایم کیوایم نے بلدیہ عظمیٰ کراچی، بلدیہ اعلیٰ حیدر آباد، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرلی تو عمومی تاثر یہی تھا کہ الطاف حسین اب شہری سندھ کے سیاہ وسفید کے مالک بن چکے ہیں لیکن اقتدار کی طاقت بھی ان کی’’ منکسر مزاجی‘‘ پر اثرا نداز نہ ہوسکی۔

یہی وجہ تھی کہ اگروہ کسی سے ناراض بھی ہوئے تو انتقام لینے کی بہ جائے معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔روایت ہے کہ ایسے مواقع پر وہ ایک شان بے نیازی کے ساتھ کہا کرتے کہ اللہ کی امانت ہے اللہ کے سپرد۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس ’’نیک دل‘‘ بندے کی خواہش کا پاس کرتے اور اپنی امانت کو اپنے پاس بلانے میں تاخیر نہ کرتے۔

مہاجروں کے مسلمہ قائد اور ترجمان کی حیثیت سے تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کی انھوں نے ہمیشہ سرپرستی کی، چناں چہ نائن زیرو پر اکثر ثقافتی تقاریب برپا ہواکرتیں جن میں مشاعرے بھی شامل تھے۔

ایک مشاعرے میں جس کی صدارت الطاف حسین خود کررہے تھے،اپنے خطاب میں انھوں نے علامہ اقبالؒ کے علم و دانش اور مقام و منصب کے بارے میں نہایت سنگین نوعیت کے ’’علمی‘‘ سوالات اٹھائے ، مشاعرے میں شریک ایک نابکار شاعر جن کی تاب نہ لاسکا۔ اس نے قریب بیٹھے کسی دوسرے شاعر کے کان میں کوئی ایسی بات کہہ دی جو الطاف حسین کے شایان شان نہ تھی۔

پیر صاحب تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے کہ کارکنانِ ’’قضاو قدر‘‘ نے اسے مشاعرے کی اسٹیج سے فوراً ہی اتار پھینکا،

قریب تھاکہ اللہ کی’’ امانت ‘‘اس کے سپرد ہوجاتی مگر عبید اللہ علیم بیچ میں آگئے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا،ایسا نہ ہوتا تو بہت سے لوگ ان کی اس کرامت کے چشم دید گواہ بن جاتے مگرکیا کیجئے کہ اللہ کو یہ منظور نہ تھا۔

ان کے مخالفین ایک نعرے کا ذکر اکثرتنقیدی انداز میں کیاکرتے ہیں جس میں منزل کی بجائے رہنما کے حصول کی آرزو کی گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس نعرے کا اصل سبب وہ ناکامیاں تھیں جو اس جماعت کے حصے میں آئیں۔

یہ جماعت کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور محصور پاکستانیوں کی پاکستان واپسی کے نعرے پر وجود میں آئی تھی،اسی کے زورپر اقتدار کے ایوانوں تک بار بار پہنچی لیکن نہ کوٹہ سسٹم اپنے انجام کو پہنچا اور نہ محصورین کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔بلاشبہ یہ ایک ناکامی ہے مگرلوگ اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیتے۔

الطاف حسین جیسے طاقت ور سیاست داں کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف یا پھر جنرل پرویز مشرف سے کہہ کر چشم زدن میں یہ مسائل حل کرا لیتے لیکن اس کے نتیجے میں پرانے سندھی اور خاص طور پر سندھی قوم پرست آزردہ خاطر ہوتے لیکن دل شکنی ان کا مشرب نہیں۔

ویسے بھی اب وہ کسی خاص قومیت سے دست بردار ہو کرمتحدہ قومیت کے علم بردار بن چکے تھے۔متحدہ قومیت کی بات کرنا اور دوسری قومیتوں کو دکھ پہنچانا ، یہ کوئی اچھی بات ہوتی؟لوگوں کی دل جوئی کے معاملے میں الطاف حسین اپنے پیش رو سیاست دانوں اورحکمرانوں سے کہیں آگے تھے۔

بھٹو صاحب نے آئین میں کوٹہ سسٹم کو دس برس کے لیے تحفظ دیا، جنرل ضیاالحق اس میں صرف دس برس کی توسیع کرسکے لیکن الطاف حسین کی وسیع القلبی دیکھئے، انھوں نے بہ یک وقت بیس برس توسیع کی سفارش کی اوراپنے ’’مقصد‘‘ میں کامیاب رہے، اس کے باوجودکوئی انھیں تنگ نظر قراردیتا ہے تو یہ اس کااپنا ظرف ہے۔روزمرہ کی سیاست اور تنظیم کی تھکا دینے والی بے پناہ مصروفیت کے باوجود اصلاح ِمعاشرہ کا عظیم مقصد ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔

80ء کی دہائی کے دوران ملک کے مختلف حصوں ،خاص طور پر کراچی میں ڈبو کا کھیل بہت مقبول ہوا۔شہر کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں گلی کوچوں میں ڈبو کی میزیں نہ سجتیں ، الطاف حسین نے اس معاشرتی ’’برائی‘‘ کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریروں میں ڈبو کے آزمودہ کار کھلاڑیوں کی طرح مٹھی گھما گھما کر اس کی مذمت کی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ڈبو شاپش بند ہونے لگیں ،مخالفین نے کہا کہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے۔ اس الزام میں کچھ صداقت بھی ہو گی مگربڑے مقاصد کے لیے چھوٹی چھوٹی ’’قربانیاں‘‘ تو دینی ہی پڑتی ہیں۔

الطاف حسین نے ڈبو کی دکانیں بند کرائیں تو نوجوان اس’’ فضول‘‘ مشغلے کو چھوڑ کر زیادہ’’ بہتر‘‘ مشاغل کی طرف متوجہ ہوئے اورکراچی کے لوگوں نے ہلالی خنجر کو اپنی آنکھوں سے اس شہر کا’ ’ قومی نشان‘‘ بنتے دیکھا۔

الطاف حسین چین سموکرتھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی کیوں کہ اپنی صحت سے زیادہ انھیں قوم کی صحت عزیز تھی۔ شہر اس زہر کے دھویں سے’’ پاک‘‘ ہوگیا، پان بیڑی فروخت کرنے والے ٹھیلے اور دکانیں ویران ہوگئیں۔ شہر’’قائد‘‘ میں رونما ہونے والا یہ واقعہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا لیکن بدخواہوں نے اس میں بھی مین میخ نکالی ،

کہا گیا کہ اس کے پس پشت کئی ناگفتنی کہانیاں تھیں،کچھ ایسے معاملات جن کے سدباب کے لیے اس صنعت کے لوگوں کو بھی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔بات یہ ہے کہ لوگ تصویر کا تاریک پہلو ہی دیکھتے ہیں ، یہ نہیں سوچتے کہ اس شرمیں بھی خیر کے کئی پہلو پوشیدہ تھے۔

یہ الطاف حسین کی سگریٹ نوشی کے خلاف مہم ہی کا صدقہ ہے کہ آج ہزاروں لوگ اس کے نتیجے میں جنم لینے والے اداروں سے رزق پاتے ہیں او ر انھیں دعا دیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ الطاف حسین اپنی وضع کے درویش اور بے ریا صوفی تھے جنھوں نے اپنی ذات حتیٰ کہ نیک نامی کو بھی دائو پر لگا کر اللہ کی مخلوق کو فیض پہنچایا۔ اپنے ان ہی’’اوصاف حمیدہ ‘‘کے باوصف انھیں تادیر یاد رکھا جائے گا،باقی اللہ علیم وخبیر ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں