میدان بدر جہاں جنگ بدر لڑی گئی

کہوں تو گردش لیل و نہار رک جائے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طفیل ہاشمی۔۔۔۔۔۔
ابو سفیان کاروان تجارت لے کر مدینہ کے مضافات سے گزر رہا تھا. مہاجرین کے مکہ چھوڑ آنے کے بعد جن لوگوں نے ان کے اثاثوں، مکانات، جائیدادوں، کاروبار اور مال تجارت پر قبضہ کر لیا تھا، اب اسے دوگنا چو گنا کرنے کے لیے اسی راہ سے گزر رہے تھے. حق پہنچتا تھا کہ ان سے اپنا مال چھین لیا جائے. وہ کون تھے؟

وہی جنہوں نے گھر چھینے، بچے چھین لئیے، رزق چھین لیا، امن لوٹ لیا سکون غارت کردیا، عزت لوٹ لی اور ہر ممکن کوشش کی کہ زندگی بھی چھین لیں. جو بمشکل بچ کر مدینہ پہنچے وہ لخت لخت ہو گئے تھے، نان شبینہ اور سایہ دیوار سے بھی محروم. خود کہیں، بیوی بچے کہیں __بیچ میں سینکڑوں میل کا لق و دق صحرا ہی نہیں بلکہ ہر گھاٹی اور ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی بھیڑیا گھات میں بیٹھا ہے۔

قافلہ سالار نے بوسفیانی کارواں کا تعاقب کرنے کا حکم دیا. ایسے میں زیادہ تر وہی لوگ نکلے جن کے دل زخمی تھے اور پاؤں فگار یا جن کے لئیے ہر جنبش ابرو حکم کا درجہ رکھتی تھی __بکثرت لوگوں نے زیادہ دلچسپی نہیں لی ہو گی۔

لیکن
عرش والا اپنی کن فیکونی کا تماشہ دکھانے جا رہا تھا. ابوسفیان کو متبادل راہ دکھا دی اور مکہ والوں کو ہانک کر بدر میں پہنچا دیا. ہنگامی طور پر آنے والے ڈر نہیں گئے تھے بلکہ کہنے لگے __پتہ ہوتا تو بہتر تیاری سے آتے

لیکن
اس نے بہتر تیاری کی بے بضاعتی کا جو آخری سبق حنین میں دینا تھا اس کا نکتہ اولیں آج کا موضوع تھا کہ فیصلے تیاری پر نہیں عرش والے کی جنبش لب سے ہوتے ہیں. آج مکہ نے اپنے قلب و جگر کو بدر میں لا کر سجا دیا تھا

اور
ادھر سے مکہ کے کچھ خانماں ویران تھے یا مدینہ کے وہ چرواہے جن کا خون بہانا مکہ کے سورما اپنی تلواروں کی توہین سمجھتے تھے۔

آج پوری کائنات کی موت و حیات کا فیصلہ ان تین سو تیرہ نفوس قدسیہ کے کندھوں پر آگیا تھا. رات بھر فضائے بدر میں ایک ہی صدا گونجتی رہی

بار الہا، آج اگر یہ مٹھی بھر تیرے نام لیوا رزق خاک ہو گئے تو قیامت تک روئے زمین پر تیری توحید کی شمع جلانے والا کوئی نہیں ہوگا.

امتحان صرف یہ نہیں تھا کہ تعداد و وسائل میں تفاوت تھا اصل امتحان یہ تھا کہ ایک قبائلی سماج میں دونوں طرف ایک خاندان، ایک خون اور ایک نسل آمنے سامنے تھی. وہ عرش پر بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ کہیں کوئی خونی تعلق، پدرانہ شفقت، برادرانہ محبت ایمان کے تقاضے کی راہ میں حائل تو نہیں ہوتی.

عرب کے دور دراز کے صحرا میں ایک معمولی جھڑپ جو ایک دن کے چند گھنٹے جاری رہی انسانیت کی پوری تاریخ کو یوم الفرقان کے عنوان سے رقم کر گئی
اور

جو اس میدان میں سرخرو ہوئے ان کی بلندیوں کو کبھی کوئی نہ چھو سکا
رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں