لڑکی مضمون لکھتے ہوئے

میں کیوں لکھتی ہوں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمنہ عمر/ عمرکوٹ سندھ۔۔۔۔۔
کارگاہ حیات میں آزمانے کے لیئے اللہ تعالی نے کسی نہ کسی ہنر اور صلاحیت سے نوازا ہے۔

حضرت انسان نے دنیا میں آنے کے بعد جو کچھ سیکھا اس میں لکھنے سے افضل کوئی شے نہ تھی تبھی تو رب کائنات نے بھی انسانوں پر اپنے اس عظیم احسان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کی ابتدائی آیات میں فرمایا :
“جس نے قلم کے زریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جس کے بارے میں وہ لاعلم تھا۔”

لکھنا خدا کی ودیعت کردہ صلاحیتوں میں سے بیش بہا صلاحیت ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی انسان نے اپنی اس صلاحیت کو مختلف مقاصد کے لیئے استعمال کیا ہے۔

اشاعت دین مبین ہو یا ترسیل واقعات، شعر و ادب ہو یا امور جہاں بانی قلم و قرطاس کا کردار ہمیشہ سے لازوال رہا ہے۔

یہ لکھنے لکھانے کی روایت کا ہی اعجاز ہے کہ صدیوں پہلے کا عہد اور اس عہد کا انسان ہمیں تاریخ کے پرنوں میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔

دور حاضر کا انسان بھی اپنی اس صلاحیت کا اظہار مختلف طریقوں سے کر رہا ہے اور تاریخ کے دامن پر اپنی صلاحیتوں کے نقوش چھوڑ رہا ہے۔

میں کیوں لکھتی ہوں یا کیوں لکھنا چاہتی ہوں؟ میرے لیے یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے

میرے نزدیک
ایک حساس انسان اپنے گردوپیش کے واقعات کو گہری نظر سے دیکھتا اور شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ وہ ان واقعات اور ان کے پس منظر میں چھپے مسائل کا باریک بینی سے تجزیہ کرتا ہے۔ وجوہات تک پہنچ کر نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس سارے سفر میں وہ جس کرب سے گزرتا ہے اسے وہ قرطاس کے ذریعے قاری تک پہنچا کر اس کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ شائد ایک لکھنےوالے کا فرض بھی ہے۔

یہی وہ جذبہ تھا جس نے مجھے لکھنے پر آمادہ کیا ۔ میری خوابیدہ صلاحیت کو مہمیز دی اور مجبور کیا کہ معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ان خاموش بیماریوں کی جراحی کرنے کی اپنی سی کوشش کروں ، میری یہ حقیر کوشش اگر کسی ایک کے درد کا درماں بھی ثابت ہوگئی تو میں سمجھتی ہوں‌کہ میرا بیڑا پار ہے۔

میں نے اپنے قلمی سفر کا آعاز ایک موقر روزنامے میں قارئین کے صفحے سے کیا، لیکن ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔
میرا نصب العین میرے سامنے ہے میرا فرض مجھے پکار رہا ہے اور میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں اپنی اس صلاحیت کو حالات کی گردشوں کے ساتھ ہمہ وقت آزماتی رہوں گی ۔ امید کرتی ہوں کہ آپ کی دعائیں اس سفر میں میرے ہم رکاب رہیں گی ۔

زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں