عائشہ یاسین۔۔۔۔۔۔
آج کل کی دنیا ایجادات کی بنیاد پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ اس ترقی نے وقت کو جیسے سمیٹ لیا ہے۔ فاصلوں کی اہمیت لمحوں میں لپٹ گئی ہے۔ اپنی بات کو دوسروں تک پہچانا ہے حد آسان ہوگیا ہے۔ادھرہم نے کچھ سوچا اور ادھراس کی تشہیر ہوجانا اب ایک عام عمل ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ان باتوں کو جادو یا معجزہ سمجھا جاتا تھا یا دیگر الفاظ میں خواب میں ایسا ممکن تھا۔ اگر ہم 1980 کی دہائی ہی کی بات کریں تو اس زمانے میں بھی یہ خواب میں ہی ممکن تھا کہ ہم کچھ سوچیں اور اس کی تشہیر دنیا کے ہرکونے میں ہوجائے۔
ہم نے ٹیلی فون سے لے کر موبائل ایجاد کیا اور انٹرنیٹ پر دنیا کو لہروں کے ذریعے نشر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس برقی لہروں کی دنیا کو سوشل ورلڈ کا نام دیا۔ کہنے کو دنیا مٹھی میں نہیں بلکہ اب انگلیوں کے پوروں پر آچکی ہے جسے ہم ٹچ اسکرین کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ کسی جادو سے کم نہیں کیوں کہ دنیا کےایک کونے سے ہم کہیں پر بھی بیٹھ کر کسی سے بھی رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ بے شک یہ سائنس کی بڑی کامیابی ہے جس نے ہم انسانوں کو آسانیاں دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
دنیا نے جہاں ترقی کی وہیں انسانوں نے خود کو اس ترقی میں ضم کرنا شروع کردیا۔ جس کے نتیجے میں انسان کی سوچ و تربیت ان ٹیکنیکل آلات کی محتاج ہوگئی۔ وقت گزرتے کے ساتھ ساتھ طرز زندگی بھی متاثر ہوتا گیا۔
جہاں پہلے مل بیٹھنے اور خاندانی رسم و رواج نبھانے کا دور تھا اب وہاں انسٹا گرام اور فیس بک کمیونٹی نے لے لیا۔ قریب موجود افراد کی موجودگی کو بھی تقریبا فراموش کردیا جاتا ہے اور جو اسکرین کے اس پار بیٹھا ہے جس سے محض ایک تخیلاتی رشتہ ہے جس کو ہم ورچیول دنیا کہتے ہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوگیا۔
اس کا نقصان نہ صرف ایک فرد پر پڑا بلکہ پورے کا پورا معاشرہ اس مرض کا شکار ہوگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ خونی رشتوں سے زیادہ فیس بک میں موجود افراد اپنے ماں باپ بہن بھائی سے زیادہ سگے ہوچکے ہیں۔
لوگ ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے ناواقف اور اکتائے ہوئے پھرتے ہیں۔ ایک کمرے میں موجود چار افراد جن میں میاں بیوی اور دو بچے شامل ہوتے ہیں ایک ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے حالات و خیالات سے انجان ہاتھ میں موبائل ، ٹیب یا لیپ ٹاپ پر بیٹھے سارے جہاں کی خبر گیری میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہیں ۔
یہی حال خواتین کا ہے۔ ان کو سوشل میڈیا میں موجود تمام بحث اور کمنٹس کا زیادہ صدمہ لاحق رہتا ہے ناکہ پاس بیٹھے بچے کا جس کو ان کی آغوش اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو وقت دینے کے بجائے نام نہاد سوشل گروپ پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں اور جہاں تک بات بچوں کی ہے تو یہ بچے تو ہیں ہی سوشل جنریشن ۔
انھیں اگر والدین اور گھر میں موجود افراد کی توجہ نہ بھی ملے تو یہ با آسانی ان سائنسی آلات پر اپنا ٹائم پاس کر ہی لیتے ہیں چاہے ان کے عمر چھے ماہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سارے قصے میں ہمارا انسان ہونا کہاں کھو گیا۔
کیا یہی ہے زندگی کے قواعد و ضوابط ہیں جو ہم نے اس دور حاضر میں سیکھے ہیں؟ کیا یہی ہے مقصد حیات کہ ہم مشینوں کو ایجاد کرتے کرتے،ان کو اپنی آسانی کے لئے استعمال کرتے کرتے خود مشینی آلات بن کر حس اور جذبات سے عاری ہوجائیں ؟ نہیں، ان ایجادات کا مقصد ہر گز انسان کو روبوٹ بنانا نہیں تھا بلکہ انسان کو آسانیاں فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب سے میل ملاپ کرسکے اور ایک بہتر خاندانی نظام قائم کر سکے۔
سوشل میڈیا اور اس جیسے تمام محرکات انسان کی قدر و قیمت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ شاید اب دیر ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے اس بات کا تو علم نہیں لیکن اس بات کا خوف ضرور ڈرا رہا ہے کہ آنے والی نسل جس میں ہماری اولادیں شامل ہوں گی کیا ہم کو اور ہمارے وجود کو برداشت کر پائیں گی جس طرح کم و بیش ہم کرتے آئے ہیں؟
کیا سارا قصور صرف اس سوشل میڈیا کا ہے یا ہم نے ہی خود کو بری الذمہ سمجھ کر سارا ملبہ معاشرے اور اس کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر ڈال دیا ہوا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم والدین کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم سوشل میڈیا کی سستی شہرت کے لئے اپنا قیمتی اثاثہ قربان کررہے ہیں۔
ہم ان فرائض سے غفلت برت رہے ہیں جو رب تعالی کی طرف سے ہم پر لاگو کی گئی ہے۔ والدین کی دیکھ بھال سے لے کر بیوی بچوں کے حقوق تک خاندان کی خیر خواہی، بچوں کی تربیت اور حقوق اللہ اولین ترجیح قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح عورت پر لازم ہے کہ گھر اور گھر داری اور بچوں کی تربیت سے لے کر خاندان کی دیکھ اور حقوق اللہ کی پابندی کو اولین ترجیح دے۔
یہ جو رشتے اللہ کی طرف سے ہمیں دئیے گئے ہیں بڑے انمول اور قیمتی ہیں ۔ اپنوں کے جانے کے بعد اپنوں جیسا کوئی نہیں ملتا۔ اپنے والدین ،بہن ،بھائی اور رشتہ داروں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات بڑے یاد گار ہوتے ہیں۔ دھوپ ہو چھائوں ہو یہ اپنے ہی ہوتے ہیں جو ہمارے آس پاس منڈلاتے ہیں۔
جب ہم پر افتاد آتی ہے یا ہم زندگی اور موت کے کھیل میں ہوتے ہیں تو یقین جانئے یہ خونی رشتے ہی ہوتے ہیں جو سجدہ ریز ہوکر دعائیں کرتے ہیں ۔ عام حالات میں ہمارے مراسم کیوں نہ خراب رہے ہوں لیکن جب ہمیں تکلیف میں دیکھتے ہیں تو کھینچے چلے آتے ہیں کیونکہ اپنے تو اپنے ہوتے ہیں۔
اس لئے آپ سب سے ایک درخواست ہے کہ اپنوں کو نظر انداز نہ کیجئے۔ ادھر ادھر دوست ڈھونڈنے کے بجائے اپنے گھر میں اور گھر والوں میں اپنا رفیق ڈھونڈیئے۔ ماں باپ کو وقت دیجیے، ان کی ان کہی باتوں کو سنئے، ان کا ہاتھ تھام کر اپنے وجود کا لمس دیجئے۔
اپنی بیوی اور بچوں میں اپنا ساتھی تلاش کیجئے۔ اپنے شوہر کو اپنی سہیلی کی طرح اپنا سمجھئے ۔ یقین جانئے خوابوں سے زیادہ زندگی خوبصورت اور گلزار ہوجائے گی۔ تخیل سے زیادہ حقیقت لطف دیتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے ہمیں ایک گھر دیا ہے جہاں اپنوں کی دھوپ چھائوں جیسی محبتیں اور رنجشیں بسی ہیں۔