عبیداللہ عابد ۔۔۔۔۔
انگریزی کی ڈکشنری میں لفظ selected اچھا بھلامحو استراحت تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ اور ملک پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دیوانوں نے اس لفظ کو اس قدرمقبول کردیا کہ خود selected بھی حیران ہے۔
اب یہ لفظ تحریک انصاف والوں کی “چھیڑ” بن گیاہے۔ “چھیڑ”سے پنجابی بولنے والے ہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ کسی کو تنگ کرنے کے لئے کوئی لفظ بار بار بولاجائے اور وہ اس سے خواہ مخواہ چڑنے لگے تو وہ لفظ “چھیڑ” بن جاتاہے اور بالکل ایسے ہی بے قابو ہوجاتاہے جیسے selected کا لفظ تحریک انصاف والوں کے قابو میںنہیں آرہا۔
یہ لفظ صرف پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے، پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم نوازشریف جعلی وزیراعظم کہہ کر اپنا غصہ نکالتی تھیں، کبھی جعلی اعظم بھی کہہ دیتی تھیں۔ تاہم اب کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا کہ selected کا لفظ کس قدرزیادہ زبان زدعام ہوچکاہے،اس قدر کہ کل سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے بھی یہ لفظ استعمال کیا۔
اپوزیشن لیڈرشہبازشریف تقریر کررہے تھے، جیسے ہی عمران خان قومی اسمبلی میں آئے اور اپنی نشست پر براجمان ہوئے تو شہبازشریف نے انھیں سلیکٹیڈ وزیراعظم کہہ کر مخاطب کیا۔ اس پر سپیکر نے کہا کہ میںیہ لفظ حذف کرتاہوں۔ شہبازشریف نے پوچھا کہ کون سا لفظ؟ سپیکر بولے:selected ۔
آج میںنے سوچا،دیکھوں کہ یہ لفظ ان دنوں کس قدر بولاجارہاہے؟
گوگل(Google) نے میرے اندازے کی تصدیق کی کہ گزشتہ بارہ مہینوںکے دوران یہ لفظ گوشہ عافیت میں پڑا ہواتھا، ہاں! کبھی کبھار کروٹ لیتاتھا اور پھر سوجاتاتھا۔ تاہم جون 2019 میںیہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ دراصل میںنے گوگل (Google)سے پوچھا تھا کہ selected کے لفظ کا رجحان کیسا رہا اور selected prime minister کاکیسا؟ اس کے لئے آپ گوگل (Google) کے تصدیقی بیان کے سکرین شارٹس بھی دیکھ سکتے ہیں۔
نکتہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھلا کتنی بار یہ لفظ استعمال کرتے اور کتنی دیر تک استعمال کرتے؟ اگرتحریک انصاف والے اس پر غضب ناک نہ ہوتے تو یہ ان کی چھیڑ نہ بنتا، یہ پاکستان میں22 کروڑ لوگوں کی زبان پر بار بار نہ آتا، اس صورت حال پر باقی دنیا والے کھی کھی نہ کرتے۔ دیکھئے! غیرملکی اخبارات بھی چسکے لے کر خبریںشائع کررہے ہیں۔
سپیکرقومی اسمبلی نے اسمبلی سے باہر بھی اس لفظ کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے اگرچہ قانونی ماہرین کا کہناہے کہ اسمبلی کے باہر کی دنیا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ پہلے ڈپٹی سپیکر اور اب سپیکر کی رولنگز کی وجہ سے صورت حال زیادہ سنگین ہوگئی ہے کہ اسمبلی کے اندر بھی یہ لفظ مسلسل استعمال ہورہاہے۔ لوگ اپنی تقاریرکے اندر جا بجا اس لفظ کے ٹانکے لگارہے ہیں، اپوزیشن ارکان اس موقع پر قہقہے لگاتے ہیں، حکومتی ارکان کے چہرے غصے کے مارے سرخ ہوجاتے ہیں اور سپیکر بے بس ۔
کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں “گو نوازگو” اور ” مجھے کیوںنکالا؟” کے الفاظ بھی خاصے زبان زدعام تھے تاہم selected تو سب پر بازی لے گیا۔ یہ خیال حماقت ہی نکلا کہ لفظ پر پابندی عائد کرنے سے لفظ دب جائے گا۔