سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا 68 سال پہلے کا تجزیہ،افسوس! آج بھی پاکستان ویسے کا ویسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالیات کے معاملے میں جب ہم اپنی مملکت کی پالیسی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ ہر لحاظ سے غلط نظر آتی ہے ۔
ٹیکسوں کا جتنا بوجھ پبلک پر ڈالا گیا ہے اُس میں انصاف ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ غریب طبقوں پر اُن کی طاقت سے زیادہ بار ڈالا گیا ہے اور امیر طبقوں پر اُن کی طاقت سے کم، حالانکہ معاملہ اِس کے برعکس ہونا چاہیئے تھا ۔
پھر ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کے طریقوں میں ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ملک کی رہی سہی اخلاقی حالت کو بھی برباد کر رہی ہیں ۔ ان کی بدولت ہماری محصول گزار آبادی روز بروز جھوٹی اور بددیانت بنتی جا رہی ہے ۔
جعلی رجسٹر رکھنا، جھوٹے حسابات پیش کرنا، جھوٹے حلفیہ بیانات دینا، اور رشوتیں دے دے کر اپنے اوپر سے ٹیکسوں کا بوجھ ہلکا کرنا روزمرّہ کا معمول بن گیا ہے ۔ اور حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں جو ایک ذرا سا عنصر ایماندار اور راست باز رہ گیا ہے وہ بھی مجبور ہو رہا ہے کہ یا تو جھوٹا اور جعل ساز اور رشوت گزار بن جائے یا پھر کاروبار چھوڑ دے ۔
پھر جو کچھ لوگوں سے ٹیکسوں کی شکل میں وصول کیا جاتا ہے اُس کا ایک بہت بڑا حصہ پبلک کے حقیقی مفاد پر خرچ ہونے کے بجائے ناروا طور پر اُڑایا جا رہا ہے ۔ میرا اندازہ ہے کہ اس دولت کا بمشکل 10 فی صدی حصہ ہی اپنے اصل مَصرف میں صرف ہوتا ہے ۔ باقی 90 فی صدی یا تو غیر قانونی طور پر غبن اور خیانت کی نذر ہوتا ہے یا قانونی طور پر دفتری حکومت کے ” لاڈلوں ” کی پرورش اور حکومت کے ٹھاٹھ باٹھ جمانے میں کھپ جاتا ہے ۔
ممکن ہے کہ میرے اِس اندازے کو مبالغے پر مبنی قرار دیا جائے ۔ مگر جن لوگوں کو مختلف محکموں کے اندرونی عملدرآمد سے کچھ بھی قریبی واقفیت ہے وہ اِس اندازے میں مجھ سے اتفاق کریں گے ۔ “
( سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ تقریر 10 نومبر 1951ء ۔ اجتماعِ عام کراچی )