ڈاکٹرعاصم اللہ بخش۔۔۔۔۔
عمران سیریز کی تازہ ترین قسط کی کہانی کچھ یوں بن رہی ہے کہ خان صاحب نے اس تازہ پھڈے میں ‘دیکھو اور انتظار کرو’ کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف گیند عدلیہ کے کورٹ میں پھینک دی ہے بلکہ ساتھ ہی پیش کردہ ویڈیو کی فرانزک جانچ سے بھی پسپائی اختیار کر لی ہے ۔ یہ کسی سیانے آدمی کا مشورہ ہے۔۔۔
اس ویڈیو کو جعلی قرار دے بھی دیں تو جیسا کہ مریم بی بی نے کہا ان کے پاس مذکورہ جج صاحب کی اور بھی ویڈیوز ہیں اور اگر یہ بات سچ ہے اور اگر کہیں وہ ویڈیو کچھ زیادہ ہی واضح ہوئیں تو حکومت کو شدید خجالت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب مریم بی بی اپنے اس پروگرام کی جانب آگے بڑھ رہی ہیں جس کا اعلان انہوں نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کو “مرسی” نہیں بننے دیں گی۔ گویا وہ انہیں قید و بند کی غیری یقینی اور صعوبت بھری صورتحال سے نکالنے کے لیے کمربستہ ہوچکی ہیں۔
اس ویڈیو کی رونمائی کے لیے کی جانی والی پریس کانفرنس میں ان کا یہ کہنا کہ ان کی نہ کسی ادارے سے لڑائی ہے نہ وہ ایسا چاہتی ہیں بس ان کے ان کے والد پر قائم مقدمات کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کر دیا جائے، اسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ان کی سیاست کا ون پوائنٹ ایجنڈا صرف اپنے والد کی رہائی ہے۔
اس حوالے سے وہ ویسا ہی کردار ادا کرنا چاہ رہی ہیں جیسا ان کی مرحوم والدہ نے جنرل مشرف کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ادا کیا۔ غالباً اپنے مرحوم دادا کی طرح ان کا بھی یہ خیال ہو کہ یار زندہ صحبت باقی، بچ جائیں گے تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔
اسی لیے وہ اپنے چچا میاں شہباز شریف کی گو سلو پالیسی کے برعکس جارحانہ موڈ میں ہیں۔ ن لیگ کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے حوالہ سے فارورڈ بلاک بنائے جانے کی خبروں نے بھی ان کے عزم کو مہمیز دی ہو گی، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
ایک تو پارٹی کی قوت منتشر ہونے سے پہلے پریشر بنایا جاسکے اور دوسرا یہ کہ اگر کچھ کامیابی ہوتی ہے تو شاید پارٹی بھی بکھر جانے سے بچ جائے۔ البتہ اس وقت جو لوگ مریم بی بی کی سیاست میں کسی انقلابی لیڈر کا ظہور دیکھ رہے ہیں شاید انہیں آگے چل کر اس حوالے سے مایوسی ہو۔ ابھی ان کا فوکس صرف والد کو قید سے نکالنا ہے جس کے لیے بغرضِ ڈیل وہ ان مبینہ ویڈیوز کا پوری طرح استعمال کرنا چاہیں گی۔
جہاں تک یہ بات کہ یہ سب ن لیگ کے خلاف بیک فائر نہ کر جائے ، تو ن لیگ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ اس قسم کا کام کسی ٹھوس “امید” کے بغیر نہیں کرتی۔ کہیں نا کہیں کوئی پس پردہ بات چیت ضرور جاری ہوتی ہے۔ منڈی بہائوالدین کا دورہ تو ہوا لیکن تلخ تقریر سے گریز شاید حالات کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جانے سے بچاؤ کی ترکیب بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم اس بار امید کا مرکز کون ہو سکتا ہے یہ اس معمہ کا سب سے اہم سوال ہے۔
قانونی طور پر جو کرنا ہے اب اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے۔ فرانزک جانچ پڑتال ہو، مقدمات کی ازسرنو سماعت کی بات ہو ، ن لیگ سے باز پرس ہو یا پھر مذکورہ جج صاحب سے پوچھ گچھ یہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نے ہی طے کرنا ہے۔
ادھر حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی صورت نواز شریف صاحب کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کسی لحاظ سے بھی حوصلہ افزا نہیں۔ سوائے باتوں اور وعدوں کے وہ عملاً کچھ خاص نہیں کر پائی، اس پر مستزاد دگرگوں معاشی حالت اور مہنگائی کا طوفان۔
ان حالات میں اپوزیشن کا احتساب اس کے لیے سب سے اچھا “اسموک اسکرین” ثابت ہو رہا ہے جس میں وہ عوام اور میڈیا کو صبح شام مصروف رکھ سکتی ہے۔ اگر میاں صاحب اور پھر زرداری صاحب (پھر انہیں قید رکھنا بھی مشکل ہو گا) کو جانے دیتی ہے تو خود اس کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو جائے گی کہ اب میڈہا اور عوام کی توجہ بٹانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا اور پھر حکومت سے کارکردگی پر تلخ سوالات شروع ہو سکتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کیا سوچ رہی ہے یہ بھی بہت اہم ہے۔ ایکسٹینشن کے معاملات اپنی جگہ ہیں لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ معاشی ابتری کی موجودہ صورت حال سے نکلنا ہے تو اس کے داخلی و سیاسی استحکام اولین ضرورت ہے۔ اگر تصادم اور افراتفری کا ماحول بڑھے گا یا آئینی اداروں کے حوالے سے شکوک و شبہات جڑ پکڑنے لگیں گے تو ملکی معیشت کی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔
حالیہ بحران ہر اسٹیک ہولڈر کے لیے بیک وقت ایک سنگین چیلنج ہے۔۔۔۔ گو ہر ایک کے لیے اس کی وجوہات نہ صرف مختلف بلکہ بعض حوالوں سے تو متصادم بھی ہیں۔ تاہم اس ڈور کا اصل سرا عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس ضمن میں جسٹس فائز عیسی صاحب کا معاملہ ایک اہم اشارہ ہو گا کہ اعلیٰ عدلیہ کیا سوچ رہی ہے اور آیا وہ خود پر موجودہ صورتحال کا کوئی دباؤ محسوس کر رہی ہے یا نہیں ۔