بچے نے دنیا کو حیران کردیا، پڑھ کے آپ بھی حیران رہ جائیں گے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دائلن! اپنی خوراک ضائع مت کرو، جوکچھ تم ضائع کررہے ہو، بعض اوقات یہ ایک پورے خاندان کو پورا ہفتہ تک نصیب نہیں ہوتا‘‘۔دائلان مہالنگم کہتا ہے کہ ’’ماں کی یہ باتیں کھانے کی میز پر اکثرسننے کو ملتی تھیں، ماں مجھے اپنی پلیٹ میں کچھ بھی چھوڑنے نہیں دیتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہوسکتاتھا کہ میں کوئی ایسی ڈیل کرلوں کہ کھانے کے کچھ لقمے کم کھانے پڑیں۔میں بہت جدوجہد کرتالیکن آخرکار مجھے اپنی پلیٹ صاف کرناہی پڑتی تھی۔ بعض اوقات میں منصوبہ بناتارہتا کہ کیسے چپکے سے اپنی پلیٹ کا کھانا کسی دوسرے کی پلیٹ میں منتقل کروں‘‘۔
’’آٹھ برس کا تھا جب میں اپنے گھروالوں کے ساتھ رشتہ داروں سے ملنے بھارت گیا۔ میں نے وہاں غربت کے اسباب کا بغور مشاہدہ کیا۔
میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے بچوں کے لئے روٹی کا انتظام کرنے کے لئے کتنے پاپڑبیلتے ہیں۔ میں نے ایک چھ سالہ بچی مادھوی دیکھی جو ایک اینٹوں والے بھٹے پر کام کررہی تھی،وہ مٹی کو اینٹوں میں تبدیل کررہی تھی۔ وہ سکول جانے کے بجائے زندگی گزارنے کے لئے اپنے والدین کے ہمراہ محنت مزدوری کررہی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ مادھوی کے دادا نے ایک زمین دار سے 6000روپے لئے تھے۔ ان چھ ہزار روپوں نے اس کی آنے والی نسلوں کا مستقبل غارت کردیا۔ ان کو صبح سویرے سے رات کے اندھیرے تک کام کرناپڑتاتھا تاکہ وہ اپنا ادھارچکاسکیں ۔ میرا دل خون کے آنسو رونے لگاجب میں نے سناکہ مادھوی یہ کام چاربرس سے کررہی ہے۔ اور اپنے دادا کا قرض چکانے کی کوشش کررہی ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ وہ ایک ایسے ماحول میں کام کرنے پرمجبورتھی کہ جہاں نہ پینے کا صاف پانی میسر تھا، نہ نکاسی آب کا انتظام تھا، نہ صاف رہائش میسرتھی اور نہ ہی صحت کا تحفظ حاصل تھا‘‘۔
’’ اس دن میری جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ میں آج بھی اسے بیان کرنے میں مشکل محسوس کررہاہوں۔ غصہ، فرسٹریشن، اداسی اور بے بسی محسوس کرتے ہوئے میں سوچ رہاتھا کہ میں ہی ان بچوں کی محرومی کا ذمہ دارہوں۔تب مجھے خوراک ضائع کرنے کا اپنا فعل خصوصیت سے یادآیا۔اسی دوران مجھے اپنے والدین کے ساتھ اپنا شاکی رویہ بھی یادآیا کہ میں اکثرشکایات کرتارہتاتھا حالانکہ ہم سب ایک خوش گوار، صحت مند اور معمول کی زندگی گزاررہے تھے۔ مادھوی کے ننھے منے ہاتھوں پر جگہ جگہ کٹ لگے ہوئے تھے۔
نگے پاؤں اور مٹی سے لتھڑے بدن کے ساتھ وہ بعض اوقات12سے14گھنٹے کام کرتی تھی۔اس روز میں نے صرف مادھوی ہی کو کام کرتے نہیں دیکھا بلکہ بہت سے دیگربچوں کو بھی دیکھا۔ان میں سے زیادہ تر کی عمر چھ سے آٹھ برس تھی۔ وہ سارادن چھوٹے چھوٹے تھکن سے بے حال قدموں پر کھڑے رہ کرگزارتے تھے۔ انھیں چلچلاتی دھوپ میں بھی ایسا کرناپڑتاتھا۔ یہ بھٹہ خشت والے بھی ان بچوں سے محنت مزدوری کراکے خوش رہتے ہیں کہ انھیں زیادہ مزدوری دینا نہیں پڑتی اور ان کا کام بھی ہوجاتاہے۔مادھوی کی ماں کاکہنا تھا کہ انھیں کام ، کام اور بس کام ہی کرناہے چاہے یہ بخار میں مبتلاہوں، ان کے پیٹ میں درد ہورہاہو، ہیضہ کاشکارہوں یاپھر زخمی ہوں‘‘۔
’’میری ملاقات تیرہ برس کی سوماتھی سے بھی ہوئی جو ایک آیا کے طورپر کام کرتی تھی۔ اس کی ماں کی تنخواہ انتہائی کم تھی یعنی 1200روپے ماہانہ۔ وہ جس گھرانے میں کام کرتی تھی ان کے ہاں ایک کھانے کا خرچ بھی اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتاتھا۔میں اس کی تنخواہ کا سن کر خود بھی لرزگیا جب میں نے سوچا کہ جب میں اس سے بھی زیادہ رقم کے ساتھ ایک مہینہ تک فلموں کے ٹکٹ خریدتاہوں۔ میں نے سوچا کہ میرے سکول کے بچے کتنے خوش قسمت ہیں۔میں نے سوچا کہ مجھے اپنی زندگی میں کتنی نعمتیں مہیا ہیں ۔
تعلیم ، صحت، میرا خاندان اور اسی طرح کی دیگر نعمتیں۔ سوماتھی نے کبھی سکول کے اندرقدم نہیں رکھا۔ اسے اپنی صلاحیت بہتر بنانے کا کوئی موقع میسرنہیں تھا جسے استعمال میں لاکر وہ کوئی دوسری ملازمت کرسکے۔ اسے غربت سے نجات کی کوئی امید نہیں تھی کیونکہ اسے ایسی کوئی صلاحیت حاصل کرنے کا موقع نہیں مل رہاتھا جو غربت کے چکر سے نکال سکے۔ اس کامطلب تھا کہ اسے بہترمستقبل کی بھی کوئی امید نہیں تھی‘‘۔
’’اس پورے دورے کے دوران میں نے جوکچھ دیکھا، اس نے مجھے خوب بتادیا کہ میری ماں مجھے کھاناضائع کرنے سے کیوں روکتی ہے۔میں بمشکل نوبرس کا ہوں گا۔اور میں سوچتاتھا کہ میں مادھوی جیسے بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لئے کیاکردار اداکرسکتاہوں۔ جب2004ء میں بھارت کے ساحلوں سے سونامی طوفان ٹکرایااور اس کی خبریں ہم نے سنیں تومیری بہن نے میری برین سٹارمنگ کی کہ میں کیاکردار اداکرسکتاہوں۔ میرے بہت سے رشتہ دار اور دوست جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں رہتے تھے ، وہ بھی سونامی سے متاثرہوئے تھے۔
مجھے زیادہ پتہ نہیں تھا کہ سونامی کیاہوتاہے، اس کی وارننگ علامات کو کیسے دیکھاجاسکتاہے اور ان سے لوگ کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔میں سوچتاتھا کہ ہم لوگوں کی مدد کے لئے ٹیکنالوجی کو کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیاکہ میں مختلف سکولوں کے بچوں کا ایک گروپ قائم کروں گاتاکہ ہم ایک ایجوکیشنل ویب سائٹ بنائیں جس کے ذریعے لوگوں کو سونامی کے تباہ کن اثرات سے آگاہ کریں اور یہاں ہم سونامی متاثرین کے لئے فنڈریزنگ بھی کرسکیں۔پہلے ہفتے میں ہمیں900ڈالرملے جس کے بعد ہم نے ویب سائٹ بنائی، اس کے نتیجے میں ہمارامختلف تنظیموں اور اداروں سے رابطہ ہوا۔ہمیں اپنے کام کی پروموشن کا موقع ملا اور دنیا بھر کے بچوں سے رابطہ بھی ہوا۔ میرے لئے یہ انتہائی حیرت کا مقام تھا کہ جب اگلے چند ماہ کے دوران دنیا بھر کے بچے آپس میں اس طرح مربوط ہوئے کہ ہم نے780000ڈالر جمع کر لئے۔ یہ سونامی متاثرین کے لئے امداد تھی‘‘۔
دائلان مہالنگم کا کہنا ہے ’’میں اس نتیجے پر پہنچاکہ معاشروں میں تبدیلی لانے کے لئے عمرکوئی معنی نہیں رکھتی۔بس! اسی چیز نے مجھے نوجوانوں کے لئے ایک نیاادارہ قائم کرنے کی طرف ابھارا۔ ’’للز ایم ڈی جیز‘‘ کے ذریعے ہم نے دنیا بھرمیں فنڈریزنگ کی جو چائلڈلیبرکے خاتمے میں کام آسکے۔ سب سے پہلے ہم نے وسائل، سامان اور تربیت کے ذریعے مادھوی کے گھروالوں کو ظلم واستحصال کے چنگل سے نجات دلائی۔ اب ان کا چائے خانہ ہے۔ اسی طرح ہم نے سوماتھی کو بھی ایک نئی راہ دکھائی۔ وہ سلائی میں دلچسپی رکھتی تھی۔ ہم نے اسے سلائی مشین لے کر دی۔ اب وہ خوب کمائی کررہی ہے‘‘۔
جب دائلان مہالنگم نے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک غیرمنافع بخش بین الاقوامی تنظیم قائم کی، تب اس کی عمر نوبرس تھی۔ اس تنظیم کا مقصد نوجوانوں کی صلاحیتوں کی نشوونما کرکے انھیں خود مختار بنانا ہے۔اس کے لئے ڈیجیٹل میڈیا کا ہتھیار خصوصیت سے استعمال کیاجارہاہے۔ ان کے پیش نظر یونائیٹڈ نیشنز میلینئم ڈویلپمنٹ گولز ہیں۔اس کی قائم کردہ تنظیم نے دنیا بھر کے30لاکھ بچوں کو متحرک رکھاہواہے۔ وہ مختلف مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے 24ہزار بچے باقاعدگی سے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کا تعلق دنیا کے41 ممالک سے ہے۔ وہ اس وقت15برس کا ہے۔
دائلان مہالنگم انٹرنیٹ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو تعلیم دے رہا ہے، انھیں مثبت سرگرمیوں میں مصروف کر رہا ہے، اور انھیں طاقت ور بنارہاہے۔جب سونامی آیاتو اس نے اپنے تنظیم کے دیگرارکان کو ساتھ ملاکر780,000ڈالرکی فنڈریزنگ کی۔ جب امریکا میں ہریکین طوفان آیاتو اس نے 10ملین ڈالر اکٹھے کئے، اس نے تبت میں ایک بڑی اقامت گاہ ، بھارت میں ایک موبائل ہسپتال اور یوگینڈا میں ایک سکول کو کھیل کامیدان بناکردیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “بچے نے دنیا کو حیران کردیا، پڑھ کے آپ بھی حیران رہ جائیں گے”

  1. Zubada Raouf Avatar
    Zubada Raouf

    یہ بہت اچھی اور ھما رے نوجوانوں کے لئے تحریک آمیز سٹوری ھے۔ مصنف نے اس بات کو بہترین طریقے سے ہائی لائٹ کیا کہ نوجوانوں کو کس طرح وقت اور وسائل کا صحیح استعمال کرنا چاھئے ۔ زبردست، میں اپنے بچوں کو ضرور پڑھاؤں گی۔