ان دنوں پاکستانی قوم برطانوی اخبار” ڈیلی میل” کی دو نیوزرپورٹس کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ پہلی سٹوری پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائدحزب اختلاف میاں شہباز شریف سے متعلقہ ہے۔
برطانوی اخبارمیں گزشتہ اتوار کو صحافی ڈیوڈ روز کی ایک خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا جس کے مطابق ’تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے لیے 500 پاؤنڈ سے زائد کی رقم بطور امداد فراہم کی گئی اور یہ امداد ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ، جو کہ برطانیہ کا ایک سرکاری ادارہ ہے، کے ذریعے دی گئی۔‘
ڈیوڈ روز کے مطابق ’اس امدادی رقم سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دس لاکھ پاؤنڈ کی رقم اپنے فرنٹ مین پاکستانی نژاد برطانوی شہری آفتاب محمود کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی اور انہوں نے یہ رقم شہباز شریف کی فیملی کو فراہم کر دی۔‘
خبر میں بتایا گیا کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان نے برطانوی شہریوں کے ٹیکسوں سے دی گئی امدادی رقم میں غبن کیا۔ ڈیلی میل کی جانب سے شہباز شریف کے مختلف برطانوی عہدیداروں کا بھی تذکرہ کیا گیا۔تاہم برطانوی ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) کے ترجمان اور شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے اس خبر کی تردید کردی۔
ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان کی جانب سے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اس خبر کو ’بے بنیاد‘ اور ’من گھڑت‘ قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔ وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں 2005 میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے لیے امدادی رقم اُس وقت قائم کی گئی ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی (ایرا) کو فراہم کی گئی تھی، جس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ یہ خبر درست ہے۔وہ برطانوی اخبار کو مستند اور موقر مانتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ “ڈیلی میل” ایک متنازعہ اخبار ہے جس سے وابستہ رپورٹرز سپانسر سٹوریز شائع کراتے ہیں۔ شہبازشریف سے متعلقہ مذکورہ بالا خبر بھی تحریک انصاف کے لوگوں نے تیار کروائی۔
تاہم تحریک انصاف کے رہنما اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ یہ خبربرطانوی جریدے کی اپنی ہے، انھوں نے اس خبر کی تیاری میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس پر ‘ڈیلی میل’ کے صحافی ڈیوڈ روز سے رابطہ کیا گیاتو ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے یہ رپورٹ تیار کرنے میں ان کی مدد کی تھی۔
مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اگر ڈیلی میل کی یہ خبر مستند ہے تو “ڈیلی میل” کی وہ خبر بھی مستند مانی جائے جو عمران خان، ٹیریان اور جمائما سے متعلقہ تھی۔ یادرہے کہ 26 ستمبر 2018 کو شائع ہونے والی خبر میں ‘ڈیلی میل’ کی رپورٹر نیٹالی کلارک نے بتایا تھاکہ ٹیریان عمران خان ہی کی بیٹی ہے۔ عمران خان نے ٹیریان کو اس لیے کھلے عام اپنی بیٹی تسلیم نہیں کیا، کیونکہ پاکستان ایک قدامت پسند ملک ہے اور وہاں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔“
اخبار کے مطابق ٹیریان جون 1992ءمیں عمران خان اور سیتا وائٹ کے ہاں پیدا ہوئی اور اس وقت اس کی عمر 27سال ہے۔ٹیریان کی پیدائش عمران خان کی جمائما خان کے ساتھ شادی سے 3سال قبل ہوئی۔ سیتا وائٹ کی موت کے بعد ٹیریان کی کفالت عمران خان کی پہلی اہلیہ جمائما خان نے اپنے ذمے لے لی ۔
اخبار کے مطابق ٹیریان کی پیدائش کے بعد سیتا وائٹ جتنا عرصہ زندہ رہیں، ہر ممکن کوشش کرتی رہیں کہ عمران خان ٹیریان کو اپنی بیٹی تسلیم کر لے۔ اس کے لیے انہوں نے عدالت میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ 7سال بعد 2004ءمیں عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو ٹیریان کا باپ قرار دے دیا۔ سیتا وائٹ کو شاید اسی دن کا انتظار تھا کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اچانک ان کی موت واقع ہو گئی۔
برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000ءمیں سیتا وائٹ نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔ٹیریان اب نیویارک اور لندن میں رہتی ہے۔ جب وہ لندن میں ہوتی ہے تو جمائما خان کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہوتی ہے۔ یہ چار افراد جمائما، ٹیریان، قاسم اور سلیمان پر مشتمل ایک خوش و خرم فیملی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ان چاروں نے اپنے فیملی انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر اپنا ایک گروپ فوٹو بھی پوسٹ کیا تھا، جو میکسیکو کی سیاحت کے دوران بنایا گیا تھا۔ عمران خان تو آج بھی ٹیریان کو اپنی بیٹی تسلیم نہیں کرتے تاہم جمائما خان کھلے عام اسے اپنی سوتیلی بیٹی کہتی ہیں۔
مسلم لیگی ذرائع کا استدلال بہرحال اہم ہے کہ اگر ڈیلی میل ایسا ہی مستند ذریعہ ہے تو اس کی عمران خان، ٹیریان اور جمائما سے متعلقہ خبر کو بھی مستند مانا جائے۔
بہرحال مسلم لیگ ن کےسربراہ کے خلاف خبر کے جواب میں تحریک انصاف کے سربراہ کے خلاف خبر ایک بار پھر زندہ ہوگئی۔ اپوزیشن جماعت بھی اب اس خبر کو خوب عام کر رہی ہے۔ سیتاوائٹ، ٹیریان کا معاملہ ہرچند ماہ یا برس بعد عمران خان کا پیچھا کرنے لگتا ہے۔ اور پیچھا کرتا رہے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بھی سیتا وائٹ اور ٹیریان کے معاملے کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار گزشتہ کئی برسوں سے سرگرم ہیں، وہ انھیں آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے حوالے سے نااہل قرار دلانا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ عمران خان ٹیریان کو اپنی بیٹی تسلیم نہیں کرتے حالانکہ امریکی عدالت اس لڑکی کو عمران خان کی بیٹی قرار دے چکی ہے۔