ابن فاضل،کالم نگار،سمندرکنارے

پاکستانی صنعت اور پاکستانیوں کے رویے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل۔۔۔۔۔
بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ابنِ انشاء ایک سرکاری وفد کے ساتھ چین گئے۔ ظاہر ہے کہ ستر کی دہائی کا اوائل ہوگا۔ ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ہمیں ہوٹل میں شیو کرنے کیلئے جو ریزر دیے گئے تھے وہ انتہائی ناقص تھے۔ میں شیو کرکے نکلا تو میرے چہرے پر جابجا زخم ہورہے تھے۔

ہمارے میزبان نے انتہائی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ چین کے بنے ہوئے ریزر عالمی معیار کے نہیں لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ہم عالمی معیار کے ریزر بنانے کے قابل نہیں ہوں گے ہم زخم برداشت کر لیں گے لیکن درآمد شدہ ریزر استعمال نہیں کریں گے۔

آپ ذرا تصور کریں کہ کیا آبادی رہی ہوگی سن 73 ~74 میں چین کی۔ گویا کروڑوں لوگ، جانے کتنا عرصہ روزانہ شیو کرتے ہوئے زخمی ہوتے رہے لیکن خود انحصاری اور خود اعتمادی کا جادہ نہیں چھوڑا۔ آج وہ جہاں ہیں ساری دنیا کے سامنے ہے۔
اور اس کی بنیاد ہیں وہ عمومی معاشرتی رویے۔

اب وطنِ عزیز کا موازنہ کیجئے. لاہور برانڈرتھ روڈ ہارڈویئر کی تھوک کی منڈی ہے۔ آپ صبح سے شام تک گھوم آئیں۔ سب دکانیں میڈ ان چائنہ سے بھری پڑی ہیں۔ پیچ کس، پلاس، رینچ،ٹیپ، ٹسٹر، فیتے، ہتھوڑا، بلوور،گرائینڈر ،کنٹرولرز،بجلی کا سامان، پمپس، پیٹر انجن ،پائپ، فٹنگز غرضیکہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو چین سے درآمد شدہ نہیں۔ بالکل یہی حال شاہ عالم مارکیٹ، اور بادامی باغ مارکیٹ کا ہے سب چین سے درآمد شدہ۔

آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہماری صنعتیں بانجھ ہیں؟ یہ سب نہیں بنا سکتیں؟ تو صاحب یہ خیال ذہن سے جھٹک دیجئے۔ دنیا کا پانچواں بڑا پلانٹ ہے ٹیوٹا گاڑیوں کا پاکستان میں ہے۔ انجن اور بریک اسمبلی کے علاوہ سب پرزے پاکستانی صنعتوں میں بنتے ہیں۔

سوزوکی نے 2018 میں ایک لاکھ تینتالیس ہزار گاڑی بنائی۔ ستر فیصد سے زائد پرزے پاکستانی صنعتوں میں بنے۔ تھے۔ ملک میں بیس لاکس سالانہ موٹر سائیکل بنتی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ ٹریکٹر بنتے ہیں پچانوے فیصد پرزے پاکستانی صنعتوں میں بنتے ہیں۔

ٹینکوں، میزائیلوں سے لیکر ڈرون تک انہیں صنعتوں اور صنعتکاروں کے ہاتھوں خودانحصاری کی منزل پاچکے الحمد للہ۔

جنرل موٹرز امریکہ سے لیکر والوو سویڈن تک ہم پرزے برآمد کرتے ہیں۔ بوئنگ جہاز کو 1983 سے پاکستانی پرزے سپلائی ہورہے ہیں۔ یورپی جہازی صنعت کو میڈ ان پاکستان جارہا ہے۔ اگر ہم نہیں بنا سکتے تو پیچ کس پلاس نہیں بنا سکتے۔ کیسی عجیب بات ہے۔

معاملہ تھوڑا گھمبیر ہے۔ جتنی بھی کاراور ٹریکٹر ساز صنعتوں کا ذکر کیا وہاں ایک خاص حجم سے بڑی صنعتوں کی رسائی ہے۔ پرزے دینے اور معاوضہ لینے کا ایک منظم نظام ہے۔ زیادہ تر صنعتیں پرزوں کی وصولی کے بعد ایک ماہ میں ساری رقم کا چیک دےدیتی ہیں

لیکن جو چھوٹی صنعتیں ہیں، ان کی دسترس یہ مارکیٹیں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا۔ اب جب کوئی چھوٹا صنعت کار کوئی پرزہ بنا کر ان تھوک کے دکانداروں کے پاس جاتا ہے تو یہ اس کو معیار اور قیمت کے لحاظ سے بہت مایوس کرتے ہیں۔

جس قیمت پر چین سے سو فیصد رقم ایڈوانس دیکر مال خریدتے ہیں، اس سے کہیں کم قیمت پر ادھار خریدتے ہیں۔ ادھار بھی غیر متعین۔ اگر لاکھ کا مال لیا ہے تو کبھی دس ہزار، کبھی پانچ ہزار۔ بروقت رقم نہ ملنے کی وجہ سے فیکٹری خام مال نہیں خرید پاتی۔ مزدور بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سی فیکٹریوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی کچھ چھوٹے صنعتکار جوذرا بہتر معیار کے پرزے بنا سکتے ہیں، ان سے مال لیکر جعلی مہریں، جعلی پیکنگ میں برآمدی بناکر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ یہاں قصور ہم شہریوں کا بھی ہے جو "میڈ ان پاکستان” کا اعتبار نہیں کرتے اور امپورٹیڈ پر اصرار کرتے ہیں۔

ایک بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی فیکٹری جو اپنے نام سے اپنی پیکنگ میں "میڈ ان پاکستان” مال بیچ رہی ہے وہ کبھی آپ کو کم معیار کی چیز نہیں دے گی کیونکہ ڈبے پر، چیز پر نام لکھا ہے۔ اگر معیار کم ہوا تو اگلی بار بیچ نہیں پائیں گے۔

اور دوسری یہ کہ جو زر مبادلہ ہمارے وزرائے خزانہ اور وزیراعظم ملکوں ملکوں مانگ کر اکٹھا کرتے ہیں، بیدردی سے بیرون ملک بھجوا کر ایسا سامان منگوانا جو ہم یہاں بالکل آرام سے بنا سکتے ہیں کسی طرح بھی حب الوطنی نہیں۔

اس لیے میری سب تھوک تاجروں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ ملک میں چھوٹی صنعت کی بقا اور افزائش آپ کے رویوں سے جڑی ہے۔ خدارا پاکستانی بن کر سوچیں۔ انہیں پریشان کرنے کی بجائے ان سے تعاون کریں۔ اور سب صارفین سے کہ اپنے صنعتکاروں کااعتبار کریں۔ ان کی سرپرستی کریں ہمیشہ "میڈ ان پاکستان” پر اصرار کریں۔

کیا ہوگا آپ نسبتاً کم معیار کا بٹوا جیب میں لیے پھررہے ہوں گے، آپ کے بٹن، عینک کا فریم یا دوپٹہ پر لگی لیس تھوڑی سی ہلکی کوالٹی کی ہے ہمیں کون سا بین الاقوامی فیشن شو میں حصہ لینا ہے۔ اپنا ملک ہے، سب اپنے ہیں، ایک جیسے ہیں۔ یہ فخر کیا کم ہے کہ میرے اقدام سے میرا ملک خوشحال ہورہا ہے۔ پاکستان پائیندہ باد۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں