مدثرمحمودسالار، کالم نگار

عمران خان حکومت کون سی بنکنگ اصلاحات متعارف کروائے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کو تختِ حکمرانی سنبھالے تقریباً ایک سال ہورہا ہے، گزشتہ حکومتوں کی بدنظمی اور کرپشن کے باعث ملک پہلے ہی معاشی کمزوری کا شکار تھا اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے پاس بھی زمینی حقائق کی مناسبت سے کوئی منصوبہ نہیں ہے اور مہنگائی کا جن روزانہ عوام کا منہ چِڑا کر محوِ رقصاں ہے۔

ٹیکس اصطلاحات، بیرونی قرضے، اخراجات میں کمی جیسے خوبصورت اعلانات کے باوجود حکومت عملی طور پر بوکھلا گئی ہے۔

کرپشن اور ٹیکس چوری صرف اشرافیہ نہیں کرتی بلکہ ہر شخص حتی الوسع ملک کو لوٹنے میں مشغول ہے۔ حکومت اگر کوئی قابل عمل پالیسی متعارف کرواتی ہے تو اس پر جس جس حکومتی ملازم نے عمل کرنا اور کروانا ہے وہ خود کرپٹ ہیں اور اپنی کرپشن سے ایسی کسی بھی پالیسی کو ناکام بنادیتے ہیں جو عوام کے فائدے کے لیے متعارف کروائی جائے۔

بنیادی مسئلہ ہمارا بنکنگ سسٹم اور پیسے کا غیر قانونی لین دین ہے۔

بنکنگ اور پیسے کے غیرقانونی لین دین کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہم اپنا تقابل مغرب کے بنکنگ سسٹم سے کر سکتے ہیں۔ گوکہ مغرب میں بھی محفوظ ترین بنکنگ سسٹم اور نقد کرنسی کے لین دین کے قوانین کے باوجود لاکھوں افراد ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں اور کالا دھن بھی بناتے ہیں۔

اس ٹیکس چوری اور کرپشن کے باوجود ملک معاشی استحکام رہتا ہے کیونکہ بنکنگ سسٹم سخت اور محفوظ ہے۔

اگر موجودہ حکومت پاکستان میں چند بنکنگ اصطلاحات متعارف کروائے اور ان پر سختی سے بنکوں کو عملدرآمد کروائے تو حالات بہت حد تک سدھر سکتے ہیں۔

چونکہ میرا ذاتی تجربہ امریکہ کے حوالے سے ہے تو میں یہاں امریکہ کے بنک کاری نظام کے متعلق بات کروں گا۔ مندرجہ ذیل طریقہ کار کو حکومت اپنا سکتی ہے اس میں کسی قسم کی بھاری بھرکم آئینی ترامیم کی ضرورت بھی نہیں۔

امریکہ میں نقد کرنسی سے زیادہ ڈیبٹ کارڈ، چیک اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے لین دین ہوتا ہے۔

روز مرہ کا سودا سلف لینے کے لیے سٹوروں پر ڈیبٹ کارڈ ، کریڈٹ کارڈ کے ساتھ ساتھ چیک وصول کرنے کی بھی سہولت ہے جو حیرت انگیز مگر آسان ذریعہِ لین دین ہے۔

آپ اپنے بنک اکاونٹ کو اپنے موبائل فون اور کمپیوٹر سے کنٹرول کرکے زیادہ سے زیادہ لین دین آن لائن کرسکتے ہیں۔

بجلی کا بل، سکول فیس، موبائل اور انٹرنیٹ کا بل، میڈیکل بل، گاڑی کی قسط، گاڑی کی ریپیرنگ کا بل، پبلک بس اور ٹرین کا ٹکٹ، روزمرہ کے سودا سلف کا بل، ہوٹل کا کرایہ اور کھانے پینے کا بل، کرائے کی گاڑی کا بل، اور دیگر صد ہا اقسام کے اخراجات اپنے موبائل فون کے ذریعے ادا کرسکتے ہیں یا اپنے ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے بھی۔

درج بالا عمومی گھریلو اخراجات جب نقد کرنسی کے بجائے بنک کارڈ اور بنک اکاونٹ سے ادا ہوں گے تو بلاشبہ لاکھوں افراد کے لین دین کا ریکارڈ حکومت بہ آسانی بنکوں سے حاصل کرسکتی ہے اور پھر ٹیکس چوری کرنے والے اور کرپشن کرنے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔

بنک میں اکائونٹ کھلوانے اور اسے استعمال کرنے پر برائے نام فیس لی جائے تاکہ ہر طبقہ کے لوگ بنک کی طرف متوجہ ہوں۔ بنک کے ذریعے ایسے چھوٹے چھوٹے لین دین کرنے سے چوری اور ڈاکہ زنی کا خدشہ بھی بہت حد تک کم ہوجاتا ہے،

خدانخواستہ اگر بنک کارڈ گم ہوجائے یا چوری ہوجائے تو منٹوں میں بنک اسے منسوخ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہو، نیز عوام کو اتنی سہولت دی جائے کہ پچیس تیس ہزار روپے کمانے والا فرد بھی بنک کاری کو ترجیح دے۔

بلاشبہ بنک کے لین دین میں کئی مسائل بھی پیش آتے ہیں مگر ان مسائل کے مقابلے میں اگر معاشی طور پر دیکھا جائے تو ملک کے لیے یہ نظام بہترین ہے۔ پاکستان میں بنک کا نظام اتنا فرسودہ اور بدترین ہے کہ جو شخص بنک میں اکائونٹ رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ بھی بنک سے دور بھاگتا ہے۔

ہمارے بنک کے نظام میں لاتعداد خامیاں ہیں جن کی وجہ سے لوگ کرپشن اور دھوکہ دہی کے ذریعے ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ بنکوں کو عوام دوست اور معیشت دوست پالیسوں پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں