محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔۔
پیارے بچو! اگرچہ تم بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ہو۔ پروین شاکر کے زمانے تک تو تم صرف جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کیا کرتے تھے، مگر جب سے تم ہاتھ میں اینڈرائڈ فون رکھنے لگے ہو، سب پرکھنے کے قابل ہوگئے ہو،
یوں بھی اس فون کی اسکرین کی آنکھیں خیرہ کرتی روشنی میں بے چارہ ننھا سا جگنو نظر بھی کیا آئے گا، اور دکھائی دے بھی گیا تو اسے دیکھنے کے لیے تمھاری نظر اُٹھے گی کب! اس اینڈرائڈفون کی بہ دولت تم چالاک سے ”ٹک ٹاک“ ہوگئے ہو،
تمھیں حال کی خبر نہیں تو ماضی کا کیا پتا ہوگا۔ اسی لیے ہم نے سوچا کہ تمھیں تاریخ سے کچھ آگاہی دیں۔ اسکولوں کی چُھٹی ہونے کی وجہ سے یہ تو جانتے ہوگے ناں کہ چودہ اگست آرہی ہے، جس دن پاکستان وجود میں آیا تھا، تو چلو تمھیں پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بتائیں۔
پہلی بات تو یہ کہ 14اگست 1947کو جو پاکستان قائم ہوا تھا وہ پُرانا پاکستان تھا، جسے بنانے والوں نے سوچا تھا کہ بھئی ابھی تو جیسے تیسے پاکستان بنالو پھر ”جب آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان۔“
یہ بھی یاد دلادیں کہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا، جو سیاست داں تھے۔ تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ قائداعظم نے کرکٹ ورلڈکپ نہیں جیتا، پھر بھی انھوں نے پاکستان بنا لیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے پاکستان بنانا بہت آسان تھا، ورلڈکپ جیتے، دھرنے دیے اور ناچے گائے بغیر بن جاتا تھا۔
تب پاکستان بنانا اس لیے بھی سہل تھا کہ لوگوں نے بڑے آرام سے قائداعظم کو راہ نما تسلیم کرلیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائداعظم بہت خوش لباس تھے، انھیں خود کو لیڈر ثابت کرنے کے لیے سوراخ والی قمیصیں نہیں پہننا پڑیں۔ اسی لیے انھوں نے بڑے سکون اور اطمینان سے پاکستان بنالیا۔
پُرانے پاکستان کے لیے زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑے، بس علامہ اقبال نے اکیلے خواب دیکھ لیا، نئے پاکستان کا خواب کروڑوں لوگوں کو دکھانا پڑا، وہ بھی سادہ نہیں دودھ پَتّی معاف کرنا سُنہرا خواب۔ پرانے اور نئے پاکستان کے قیام میں بس اتنی مماثلت ہے کہ تب پاکستان بنانے کے لیے برٹش ایمپائر سے گفت وشنید ہوتی تھی، اب ایمپائر سے کہا سُنا جاتا ہے۔
بچو! پُرانا پاکستان بنانے کی تحریک میں 1946کے انتخابات کا بہت اہم کردار ہے، جس میں مسلمانوں کی نشتستوں پر آل انڈیا مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی تھی، ہم واضح کردیں کہ اس کام یابی کے لیے کسی ”آر ٹٰی ایس“ (Results Transmission System) کو ناکام نہیں ہونا پڑا تھا۔ یعنی پُرانے پاکستان کے لیے ایسے کسی جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی تو آئی سمجھ، کتنا آسان تھا پُرانا پاکستان بنانا۔
پیارے بچو! تم نے بس نئے اور پرانے پاکستان کا نام سُنا ہے، ہم تمھیں بتائیں کہ کبھی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان بھی ہوا کرتے تھے۔ ہم نے کہا ناں کہ اس زمانے میں پاکستان بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، اسی آسانی کے باعث دو دو پاکستان بنا لیے گئے تھے۔
تمھیں محاوروں کی سمجھ نہیں اس لیے تم کہو گے کہ انکل! نیا پاکستان بنانا بھی تو کھیل تھا، اسی لیے ”کپتان“ اور ”کھلاڑیوں“ نے بنایا۔ بھئی بات یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کا کھیل بہت آسان ہوتا ہے اور ”کھیل کھیلنا“ بڑا مشکل ہوتا ہے، اور خفیہ ہاتھ کا کھیل اور بھی دشوار ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ ایمپائر کے بغیر نہیں کھیلا جاسکتا۔ یوں سمجھو کہ یہ سارا کھیل ایمپائر کی انگلی کے اشاروں پر ہوتا ہے۔
خیر بات ہورہی تھی مشرقی اور مغربی پاکستان کی، یعنی دو پاکستانوں کی۔ ہم چوں کہ بہت کفایت شعار قوم ہیں اس لیے سوچا کہ ایک ہی پاکستان کافی ہے، باقی سب اضافی ہے، پھر ہمیں نیاپاکستان بنانے کا شوق بھی تھا۔
ہاں بچو! ہمارا یہ شوق بڑا پُرانا ہے، ہمارا یہی مسئلہ ہے، ہمیں پاکستان نیا چاہیے اور شوق سارے پُرانے۔ اب سوچا گیا کہ کفایت شعاری کرتے ہوئے کس طرح دو پاکستان کو دولخت کرکے ایک کیا جائے اور نیاپاکستان بنایا جائے۔ نیت سچی ہو تو مقصد حاصل ہو ہی جاتا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقارعلی بھٹو اور عبداﷲ خان نیازی نے بھرپور جدوجہد کی، جن میں یحییٰ خان اور عبداﷲ خان نیازی کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ آخرکار یہ جدوجہد کام یاب ہوئی۔ یوں مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور باقی بچا مغربی پاکستان جو اُس وقت کا نیاپاکستان قرار پایا۔
دیکھا بچو! قدرت کو جب نیاپاکستان بنانا ہو تو وہ کوئی ”خان“ بھیجتی ہے جو نئے پاکستان بنانے کا بیڑا اٹھاتا ہے اور پہلے سے موجود پاکستان کا بیڑا غرق کرتا ہے۔ اس بار تو یہ یک نہ شُد دو شُد والا معاملہ ہے، یعنی اس بار کا ”خان“ خان ہونے کے ساتھ ”نیازی“ بھی ہے۔
بہ ہر حال، بات ہورہی تھی پُرانے پاکستان کے قیام کی۔ جب پُرانا پاکستان قائم ہوا تو اس نئے ملک کا خزانہ خالی تھا۔ پس تو ثابت ہوا کہ پاکستان جب بھی بنتا ہے اس کا خزانہ خالی ہوتا ہے۔ خزانہ ہی خالی نہیں تھا صنعت وتجارت کا وجود نہ ہونے کے برابر اور صحت وتعلیم، دفاع، انفرااسٹرکچر سمیت ہر شعبے کا حال ابتر تھا۔
اس بھی بھی بڑھ کر پُرانے پاکستان کی پہلی حکومت کی بدقسمتی یہ تھی کہ کوئی پچھلی حکومت نہیں تھی جس پر حالات کا بوجھ ڈالا جاسکے اور بدحالی کو ورثہ قرار دیا جائے۔ ہائے اس پہلی حکومت کی بے چارگی۔ اس حکومت نے، جس کے وزیراعظم ایک سیاست داں لیاقت علی خان تھے، کسی نہ کسی طرح ملک کو چلایا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ وزیراعظم ہیں اور وہی ملک چلارہے ہیں، اس لیے انھیں روز روز تقریر کرکے یہ بتانا نہیں پڑتا تھا۔
پُرانے پاکستان میں ہر کام بڑی سُست رفتاری سے ہوتا تھا، جیسے پہلا آئین بننے ہی میں برسوں لگ گئے اور ملک کوئی نو سال بغیر آئین کے چلتا رہا۔ پھر آئین بنانے پر آئے تو یک کے بعد دیگرے تین آئین بنا ڈالے۔
تجربے سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ملک آئین کے بغیر بھی چل سکتا ہے، اس لیے آئین سے زیادہ ”آئینِِ جواں مَردی“ پر انحصار کیا گیا۔ چناں چہ اب ہمیں اتنی آئینی مہارت حاصل ہوچکی ہے کہ آئین سے ملک چلانے کے بہ جائے آئین ہی کو چلادیتے ہیں۔ اسی مشق اور مہارت کے باعث آئین کو چھیڑے اور اس سے جان چُھڑائے بغیر نیاپاکستان تعمیر کرلیا۔
تو بچو! یہ تھی بڑی آسانی سے بن جانے والے پُرانے پاکستان کے بننے کی کہانی۔ ایسے دو چار پاکستان تم بھی بنا سکتے ہو، مگر بس ایک مسئلہ ہے کہ پُرانا پاکستان خود بنانا پڑتا ہے، ”امی، ابو“ کی مدد کے بغیر۔