محمدعامرخاکوانی، کالم نگار،دانشور

کیا پاکستان بھارت سے جنگ کے لئے تیار ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمدعامرخاکوانی۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بڑی جذباتی فضا ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ بھارت نے مظلموم کشمیریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں۔ ان کے حق میں بھرپور آواز اٹھانی چاہیے ، پاکستان کو چاہیے کہ عالمی ، سفارتی سطح پر جو کچھ کیا جا سکتا ہے کیا جائے۔ دوست ممالک سے بات چیت کر کے بھرپور لابنگ کی جائے، ہر وہ ممکن طریقہ جس سے بھارت پر دبائو ڈالا جا سکے۔

اس مسئلے پر مگر جنگی جنون طاری کرنا مناسب نہیں۔ جنگ حل نہیں اور اس وقت ایسی صورتحال نہیں جس میں ہمیں جنگ کی طرف جانا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ ایک بڑی فیصلہ کن جنگ شائد ہمارا، اس خطے کا مقسوم ہے ۔ وہ جنگ مگر ہمیں پوری تیاری سے لڑنی اور جیتنا چاہیے۔

کوئی احمق ہی پاکستان یا پاکستانیوں کو یہ طعنہ دے سکتا ہے کہ کشمیریوں کی خاطر جنگ نہیں کرتے۔ پاکستان نے بھارت سے تمام جنگیں کشمیر پر ہی لڑی ہیں۔ کارگل کا ناکام ایڈونچر اگرچہ بدترین عسکری منصوبہ تھا، اسی لئے اس کا ہمیں نقصان بھی شدید ہوا، مگر وہ منصوبہ بھی کشمیر کے لئے ہی تھا اور مقصد مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا ہی تھا۔

اس ایک جنگ میں اتنے پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس لئے یہ بات قطعی نہیں کہ پاکستانی ریاست اور عوام کشمیریوں کے لئے قربانی دینے کو تیار نہیں،

اتنی جنگیں لڑیں، ایک اوربھی لڑ لی جائے گی، اس بار شائد اس قدر تباہ کن ہو کہ جنگ کا مشورہ دینے والوں نے خواب میں بھی اس کا تصور نہ کیا ہو، مگر ا سکے باوجود اگر وہ جنگ فیصلہ کن ثابت ہو تو اس آپشن کو بھی ہم اختیار کر لیں گے۔

میرا کہنا صرف یہ ہے کہ جنگ جیتنے کے لئے لڑی جائے، اگر دو ہفتے بعد اقوام متحدہ جانا ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور جنگ اپنی مرضی سے، اپنے بہترین وقت میں اور اپنی پسند کے محاذ پر لڑنی چاہیے۔

اس وقت ہم اس پوزیشن میں نہیں، مضبوط معیشت کے بغیر جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ دفاع کی صورت دوسری ہے، خدانخواستہ اگر حملہ ہو تو پھر جو ہے، جیسا بھی ہے، اس سے دفاع کیا جاتا ہے، اپنی جاں کی بازی لگا دی جاتی ہے۔

حملہ کے لئے مگر بھرپور تیاری ضروری ہے۔ ہمیں جنگ کی آپشن کے بغیر مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی مدد کے لئے ہر ممکن آپشن کو بہترین طریقے سے بروئے کار لانا چاہیے۔ جو احباب جنگی ماحول طاری کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہ درست نہیں کر رہے۔ عوامی جذبات اس نہج تک نہیں لے جانے چاہئیں کہ ان کے دبائو میں آ کر ریاست کوئی عجلت آمیزبلنڈر کر بیٹھے۔

(مجھے اندازہ ہے کہ یہ غیر مقبول موقف ہے، اس لئے اسے لکھنے سے گریز کر رہا تھا، پھر آخر فیصلہ کیا کہ جو درست لگتا ہے وہ کہنا چاہیے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں