انتخابی اخراجات کیسے کم ہوسکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

کہاجاتاہے کہ پیسے کے بغیر کثیرجماعتی جمہوریت چل نہیں سکتی تاہم یہی پیسہ اس وقت جمہوریت کے لئے خطرناک بھی ثابت ہوتاہے جب اس کے نتیجے میں انتخابی میدان ناہموار ہوجاتاہے اور مقابلہ منصفانہ نہیں رہتا۔

بعض امیدوار زیادہ دولت استعمال کرکے انتخابی عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں، جو زیادہ پیسہ خرچ نہیں کرتے، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بہت سے امیدوار انتخاب لڑ کر بھاری بھرکم قرضوں تلے دب جاتے ہیں لیکن بہت سے امیدوار پچھلے دور کی لوٹ مار سے اندھا دھند اخراجات کرتے ہیں اور سب کو حیران کردیتے ہیں۔ یہ بات ایک طفل مکتب بھی سمجھتاہے کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ پیسے کا استعمال گورننس کو داغدار کرتاہے جبکہ قانون کی حکمرانی کمزورپڑجاتی ہے، ہمارے الیکشن کمیشن کو آج تک یہ حقیقت سمجھ نہیں آئی کہ جمہوریت وہ ہوتی ہے جو’مینی فیسٹو‘(منشور) کی بنیاد پر ہو، ’منی فیسٹو‘(دولت) پر قائم ہونے والی جمہوریت نہیں بدترین آمریت ہوتی ہے۔

نہ جانے ہمارے الیکشن کمیشن کو کب معلوم ہو کہ انتخابات میں حد سے زیادہ دولت کا استعمال یا پھر غیرقانونی اور ناجائز اندازمیں پیسہ کا استعمال کرپشن کی راہیں کھولتاہے۔ ایک امیدوار انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے پورے حلقہ انتخاب میں پوسٹرز اور بینرز کی بہار دکھاتا ہے، موثرافراد کو تحائف دیتاہے، سیروسیاحت کے ٹکٹ تھماتاہے، چمکتی دمکتی گاڑیوں کی چابیاں ان کے ہاتھ میں تھماتاہے، اپنے جلسے میں شرکت کے لئے ہر فرد کی جیب میں پانچ سو سے ایک ہزار روپے ڈالتاہے۔ اسے اپنے مخالف امیدوار کا ووٹ بنک کاٹنے کے لئے ایک یا ایک سے زائدڈمی امیدوار بھی کھڑا کرنا ہوتے ہیں.

ظاہر ہے کہ ان کے سارے انتخابی اخراجات بھی یہ صاحب خود ہی ادار کرتے ہیں اور پھر ان خدمات کے صلے میں الگ سے ایک بڑی رقم اس کے بنک اکاؤنٹ میں بھی منتقل کرناہوتی ہے، اپنی انتخابی مہم چلانے والوں کی گاڑیوں میں بھی پٹرول ڈلوانا ہوتاہے اور ڈمی امیدوار کی گاڑیوں کے ایندھن کا انتظام بھی کرنا ہوتاہے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امیدوار کو جابجا انتخابی دفاتر بھی قائم کرنا ہوتے ہیں، ان کا کرایہ اور دیگر اخراجات بھی ادا کرنا ہوتے ہیں، ہر ایسے دفتر پر روزانہ کم ازکم دس سے پندرہ ہزار روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں، پھر انتخابی مہم چلانے والے ایک سو سے ڈیڑھ سو ورکرز ( جو اپنی ملازمتیں اور کاروبار چھوڑ کر 24گھنٹے اپنا تن، من، شاید دھن بھی امیدوار پر قربان کرتے ہیں) کو بھی معاوضہ ادا کرنا ہوتاہے۔

ریلیوں اور جلسوں میں گاڑیاں بھر بھر کے لوگوں کو لایاجاتاہے، ظاہر ہے کہ اس ٹرانسپورٹ کا خرچہ بھی تو ادا کرناہوتاہے، آپ کبھی انتخابی امیدوار رہے ہوں تو ایک انتخابی امیدوار کے اخراجات کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں، یہ سارے اخراجات کرنے کے بعد جو فرد رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتا ہے، وہ سب سے پہلے یہ اخراجات وصول کرتاہے، اس کے لئے کرپشن کی ہر تدبیر اختیار کرتا ہے۔ جب ملک میں انتخابات دولت کا ایک کھیل بن جائیں تو پھر پارلیمنٹ ایسے ارکان سے بھرجاتی ہے، وہ سب مل کر کرپشن کی ایسی دھول اڑاتے ہیں کہ ایک عام شہری کا سانس لینا دوبھر ہوجاتاہے۔

انتخابات جیتنے والوں کی کرپشن کا سب سے بڑا ’’جائز‘‘ذریعہ وہ صوابدیدی فنڈز ہوتے ہیں جو انھیں ملتے ہیں۔ مال سمیٹنے کے باقی ’’جائز‘‘ اور ناجائز ذرائع الگ ہوتے ہیں، اس لئے صاف وشفاف اور بہترین جمہوریت قائم کرنے کے خواہش مند انتخابی اصلاحات کے زمرے میں اکثر مطالبہ کرتے ہیں کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے تمام صوابدیدی فنڈز ختم کرنے چاہئیں، تمام تر ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوں، سینیٹرز، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کا کام ترقیاتی فنڈز کا استعمال نہیں بلکہ محض قانون سازی اور پالیسی سازی ہوناچاہئے۔

جب ایسا نظام بن جائے گا تو سینیٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کی رکنیت بہت سوں کے لئے پرکشش نہیں رہے گی اورپھر اربوں کی کرپشن کرنے کے لئے کروڑوں خرچ نہیں کئے جائیں گے، ظاہر ہے کہ پھر انتخابات میں حصہ لینا سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔ پھر وہی لوگ انتخاب لڑنے کا سوچیں گے جو ملک اور قوم کے لئے اپنا تن، من اور دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔

یہ سوال دنیا کے تمام معاشروں میں اہم ترین سمجھاجاتاہے کہ امیدواروں کے لئے انتخابی اخراجات کی حد کیا ہونی چاہئے؟ شکر ہے کہ ہمارے ہاں بھی عام انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ حد متعین ہوتی ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے لئے الیکشن کمشن کے مطابق قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے اخراجات کی حد40 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے 20 لاکھ حد مقرر ہے۔ یعنی ایک امیدوار کی انفرادی اخراجات کی حد متعین کردی گئی ہے لیکن ایک جماعت کس قدر خرچ کرسکتی ہے، اس کی کوئی حد نہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں امیدواران برائے رکنیت قومی وصوبائی اسمبلی کی اکثریت اس طرح کی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور اس پر الیکشن کمیشن اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتاہے۔ سن2013 کے انتخابات میں الیکشن مہم کے دوران نت نئی روایتیں قائم ہوئیں،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مہم چلانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ اس لئے الیکشن کمیشن کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ضابطوں پر عمل درآمد کرانے کے لئے مضبوط ارادہ باندھے اور ایک موثر منصوبہ عمل تشکیل دے۔

اس کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمرشل میڈیا میں الیکشن مہم پر کیے جانے والے اخراجات کو ریگولیٹ کرے۔ اس باب میں پاکستانی الیکشن کمیشن بھارتی الیکشن کمیشن ہی سے کچھ سیکھ لے۔ بھارت میں انتخابی امیدواروں کو ایک حد میں اخراجات کرنے کا پابند کردیاگیاہے، اب یہ کلچر اس قدرمضبوط ہوچکاہے کہ وہاں امیدوار حد کے اندر ہی رہتے ہیں۔

انتخابی اخراجات کس طرح کم ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے مندرجہ ذیل اقدامات کرکے بہترنتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں:

اگرچہ انتخابی امیدواروں کے انتخابی اخراجات پر مکمل کنٹرول پانا خاصا مشکل عمل ہے، کیونکہ کسی بھی قیمت پر الیکشن جیتنے کی خواہش رکھنے والے امیدواران حد توڑنے کے لئے کوئی نہ کوئی چور راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔تاہم اگرالیکشن کمیشن ہرعام انتخابات کے موقع پر انتخابی اخراجات کی چھان بین پوری شفافیت سے کرے تو بہت حد تک ناجائز اور حد سے زیادہ اخراجات پر قابو پایاجاسکتاہے۔ مندرجہ ذیل اقدامات انتخابی اخراجات کو کافی حد تک کنٹرول کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں:

٭ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کو بلاکر ان کے لئے ایک مفصل بریفنگ کا اہتمام کرے، جس میں انھیں ضابطہ اخلاق سے آگاہ کیاجائے کہ امیدواروں کے خلاف انتخابی اخراجات کی حد سے آگے بڑھنے پر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد سرکاری سطح پر ایک ریٹ لسٹ جاری کی جائے جس کے مطابق ہر امیدوار صرف اس ریٹ کے مطابق اپنے انتخابی اخراجات کرسکتاہے، الیکشن کمیشن ہر امیدوار کے لئے زیادہ سے زیادہ بینرز اور پوسٹرز کی تعداد اور ان کا سائز بھی متعین کردے۔ اسی طرح دیگرجائز اخراجات کے بھی ریٹ بتادے۔ تمام ہدایات کو نہایت واضح اندازمیں بیان کیاجائے تاکہ انتخابی امیدواروں کو بخوبی اندازہ ہو کہ ان کی انتخابی مہم کی نگرانی کی جارہی ہے، اس لئے انھیں مقررہ حدود کے اندر ہی اخراجات کرنے ہوں گے۔

٭ الیکشن کمیشن امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی مانیٹرنگ کا ایک مکمل میکانزم بنائے اور اس کے مطابق مرکز سے حلقہ جات تک ایک مکمل سیٹ اپ قائم کرے، جس کی ٹیمیں مانیٹرنگ کا کام سرانجام دیں، اسی طرح الیکشن کمیشن ہرامیدوار کے انتخابی اخراجات کا خفیہ جائزہ لینے کے بعد خلاف ورزی پر سزا طے کرے۔ جب یہ سطور تحریر کی جارہی تھیں یہ خوش آئند اطلاعات موصول ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی اخراجات سے متعلق نگرانی سخت کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے ، ریٹرنگ افسران سے مانیٹرنگ ٹیموں کے لیے نام طلب کرلئے ،جن میں عدلیہ سے ہٹ کر بھی سرکاری محکموں کے ایماندار لوگ بھی ہوں گے۔

٭ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا اس معاملے میں کردار ازحد اہم ہے، اسے اپنے انٹیلی جنس کے نظام کو تیز کرنا ہوگا اور امیدوار کے قریبی دائرے میں رقوم کے ترسیل پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اسی طرح ائیرپورٹس، ریلوے سٹیشنز،ہوٹلز، فارم ہاؤسز، فنانشل بروکرز، کیش کیرئیرز پر نظر رکھنی ہوگی۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کا کردار انتخابی اخراجات کی مانیٹرنگ میں تاریخی ہوگا۔ اسے انتہائی رازداری اور ذمہ داری کے ساتھ متعلہ حلقہ میں ان تمام سرگرمیوں پر نظر رکھنی ہوگی جن کا تعلق انتخابی مہم سے ہوتاہے۔

٭ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی مانیٹرنگ بھی کلیدی اہمیت رکھتی ہے جہاں امیدواران اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایس ایم ایس سروس کے ذریعے ہونے والی تشہیر کو بھی مانیٹرنگ سسٹم میں شامل کیاجائے۔ مانیٹرنگ ٹیم کی ذمہ داریاں اس اعتبار سے بھی زیادہ ہوںگی کہ انھیں ان خبروں پر بھی نظر رکھنی ہوگی جو نیوزایڈیٹر وغیرہ کو روپیہ پیسہ فراہم کرکے یا کسی دوسرے اندازمیں مفاد فراہم کرکے لگوائی جاتی ہیں۔

٭ ہرامیدوار اپنے انتخابی اخراجات کے لئے ایک علیحدہ بنک اکاؤنٹ کھولے۔ ایک ایک پیسہ اسی اکاؤنٹ سے اداکیاجائے۔ اسی طرح ہرپارٹی بھی علیحدہ انتخابی اکاؤنٹ بنائے۔

٭ انتخابی اخراجات کے لئے امیدوار کے نام کا اس کے الیکشن ایجنٹ کے ساتھ مشترکہ بنک اکاؤنٹ ہوناچاہئے، تاہم اس میں امیدوار کی بیوی یا کسی دوسرے رشتہ دار کے نام پر بنک اکاؤنٹ کو قبول نہ کیاجائے بشرطیکہ وہ امیدوار کا الیکشن ایجنٹ نہ ہو۔ امیدوار اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے تمام انتخابی اخراجات اسی بنک اکاؤنٹ سے ادا کئے جائیں گے۔ امیدوار انتخابی مہم کے اختتام پر اس بنک اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے اور ساتھ ہی یہ حلف نامہ بھی کہ اس کی انتخابی مہم صرف اسی بنک اکاؤنٹ سے چلائی گئی۔ حلف نامہ کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن اس کی رکنیت کو ختم کرنے کا حق رکھتاہے۔ اگرکوئی امیدوار الیکشن لڑنے(چاہے وہ جیتے یا ہارے) اخراجات کی تفصیل سے الیکشن کمیشن کو آگاہ نہ کرے تو کامیاب امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیاجائے اور ہارے ہوئے امیدوار پر آنے والے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی جائے۔

٭ہرامیدوار اپنی ہرانتخابی ریلی اور جلسہ وغیرہ کی اجازت انتظامیہ سے لے اور اجازت نامہ کے ساتھ ریلی یاجلسہ کا اخراجات پلان بھی فراہم کرے یعنی اس جلسہ پراس کے کس مد میں کتنے اخراجات اٹھیں گے۔ ایسی ہر سرگرمی کی تشہیر سے لے کر شرکاء کی آمد ورفت تک کئے جانے والے انتظامات کا خرچہ بھی اخراجات میں شامل ہوگا۔

٭انتخابی اخراجات کو مانیٹر کرنے والا یونٹ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، کیبل نیٹ ورک اور ایف ایم ریڈیوز کو انتہائی باریک بینی سے مانیٹر کرے، کہنے کی بات نہیں کہ یہ مانیٹرنگ ضلع اور حلقہ کی بنیاد تک ہوگی۔

٭ میڈیا کو آگاہ کیا جائے کہ وہاں کوئی بھی تشہیری مواد ٹیلی کاسٹ اور براڈکاسٹ ہونے کی منظوری سی ای او لیول سے لی جائے۔

٭امیدوار اس پرنٹنگ پریس یا پبلشر کانام اور ایڈریس فراہم کرے، یہ بھی بتائے کہ کتنی تعداد میں پوسٹرز اور بینرز شائع کرائے گئے ہیں اور اس کی کتنی قیمت ادا کی گئی۔ اسی طرح اخبارات میں ہونے والی تشہیر اور اس کے اخراجات کا ریکارڈ بھی الیکشن کمیشن کو فراہم کیا جائے۔

٭ہرامیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کی تفصیل الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، جس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک اجازت نامہ فراہم کیاجائے جو ایسی ہرگاڑی کی ونڈ سکرین پر چسپاں کیاجائے، تاکہ وہی گاڑیاں اس کی انتخابی مہم کا حصہ بنیں۔

٭اگر امیدوار کسی بھی سماجی تقریب میں شرکت کرے (سوائے مذہبی تقریب یا شادی کی تقریب) تو اس کے تمام اخراجات امیدوار کے انتخابی اخراجا ت میں شامل کئے جائیں۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے پوری وضاحت کے ساتھ ایک فہرست تیار کرے کہ کون سی تقاریب امیدوار کی انتخابی سرگرمی ہی تصور کی جائیں گی اور کون سی تقاریب اس سے مستثنیٰ ہیں۔

٭ الیکشن کمیشن کو انتخابات سے پہلے پوری وضاحت کے ساتھ ان تمام اخراجات کی فہرست شائع کرنی چاہئے جو انتخابی مہم کے دوران جائز ہیں اور ایسے تمام اخراجات کی نشاندہی بھی کرنی چاہئے جو ناجائز ہیں۔

٭امیدوار کے بجائے کوئی دوسرا فرد انتخابی اخراجات برداشت کرے گا تو وہ بھی انتخابی امیدوار ہی کے اخراجات تصور کئے جائیں گے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن کو واضح طور پر پارٹیوں کے اخراجات کی بابت بھی ضابطہ تیار اور مشتہر کرناچاہئے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسے ضابطوں کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے ضابطوں اور سزاؤں کی ازحدضرورت ہے۔ یقیناً پاکستان میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں جو انتخابات کو روپے پیسے کا کھیل بنانے سے روکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ گھناؤنا کھیل کھیلاجارہاہے تو اس کی ذمہ داری سراسر الیکشن کمیشن اور انتخابات کرانے والے دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اسی گندے کھیل کے سبب پاکستان میں سیاسی نظام ایک گالی بن چکاہے۔ظاہر ہے کہ جب ایک نظام عوام کو کچھ نہیں دے گا، صرف ایک مخصوص طبقہ ہی اس سے فیضیاب ہوگا تو پھر وہ گالی بنے گا۔

سلمان عابد: ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،’انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ ایڈوکیسی‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا مسئلہ انتخابی اخراجات میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں اور مالی بدعنوانی کا ہے اوراس نے پورے انتخابی نظام کی شفافیت پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ دولت کے اس کھیل کی وجہ سے سیاست اورجمہوریت دونوں کمزور اور مذاق بن کر رہ گئے ہیں اور اس عمل نے عام آدمی کو سیاست اورانتخاب سے بے دخل کردیا ہے۔

ایک طرف کمزور الیکشن کمیشن اور اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عملدرامد نہ کرنے کی صلاحیت ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں اورقیادت کی کمزور کمٹمنٹ نے دولت کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو طاقت دی ہے۔اگرہم نے پاکستان میں جمہوریت اورقانون کی حکمرانی سمیت شفاف حکمرانی کا نظام مضبوط کرناہے توسیاست میں دولت کے اس کھیل کوروکنا ہوگا۔ کیونکہ دولت کے اس کھیل نے ہماری سیاست کو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال بھی بنادیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو خود مختار اور مضبوط بنا کرقوانین پر سختی سے عملدرامد کروایا جائے اسی طرح انتخاب لڑنے والوں کی کڑی نگرانی کی جائے کہ اول: ان کی دولت کے ذرائع کیا ہیں اور کتنا پیسہ وہ خرچ کررہے ہیں؟

دوسری جانب میڈیا اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست میں دولت کے کھیل کو روکنے میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کریں تاکہ اس کھیل کا سدباب ممکن ہو۔ بدقسمتی سے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو پارلیمانی کمیٹی بنی وہ بھی سیاست اور انتخابات میں دولت کھیل کے خلاف کوئی مضبوط قانون سازی نہیں کرسکے۔ہمارے پاس قوانین تو موجود ہوتے ہیں مگر ان پر عملدرآمدکیلیے کوئی تیار نہیں ہوتا یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔

یہ ووٹروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ووٹ کی مدد سے ایسے لوگ جو دولت کی بنیاد پر چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہیں کا احتساب کریں اوران کو ووٹ نہ دیں جن کی اصل طاقت محض پیسہ ہے۔یہی لوگ انتخاب جیت کرسیاسی جماعتوں کی قیادت کے قریب بھی ہوجاتے ہیں اورپارٹی فیصلوں سمیت پارٹی پر اپنا کنٹرول بھی قائم کرلیتے ہیں اور دولت مند طبقہ کے اثرو نفوذ کو کمزور کیے بغیر سیاسی جماعتیں بھی مضبوط نہیں ہوسکیں گی۔ دولت کا یہ کھیل سیاست اور انتخابات میں اہل افراد یا سیاسی کارکن جو میرٹ پر آتا ہے اس کی حوصلہ شکنی کا سبب بھی بنتا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں دولت اور چمک کو دیکھ کر پارٹی ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔

کنورمحمد دلشاد: سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہناہے کہ کینیڈا میں پارلیمان کے تمام ارکان کو پانچ سوکینیڈین ڈالر سے زیادہ اخراجات کی اجازت نہیں، وہ چھوٹے بینرز لگاسکتے ہیں اور اخبارات میں اشتہار بھی ایک خاص سائز سے زیادہ نہیں دے سکتے، الیکٹرانک میڈیا پر اشتہاربازی نہیں کرسکتے ۔ دراصل کینیڈین پارلیمان نے بل پاس کیا کہ آپ اخبارات میں اشتہاردے کراپنے ووٹروں کو راغب کرتے ہیں تو آپ کی برائیاں ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ اگر کسی امیدوار نے پانچ سوکینیڈین ڈالرسے زیادہ انتخابی اخراجات کئے تو اسے تین سال کے لئے نااہل کردیاجائے گا۔

جب میں نے کینیڈین پارلیمنٹ کا بل پڑھا تو مجھے بہت اچھا لگا، میں نے وہ چیف الیکشن کمشنر ،سپیکرقومی اسمبلی اور چئیرمین سینیٹ کو بھجوایا۔ اچھے حکومتی نظم ونسق ، عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کو بہترین اندازمیں چلانے کے لئے یہ بل بہت ضروری ہے۔ اس میں یہ بہت اچھی بات لکھی کہ جب آپ کروڑوں ، اربوں روپے کے اشتہارات دے کر عوام کے ذہنوں میں اپنا ایک نام نہاد قسم کا امیج پیدا کرلیتے ہیں تو ووٹر متاثر ہوجاتاہے اس کی مثال کینیڈین پارلیمنٹ نے یہ دی کہ جج اخبار نہیں پڑھتا کہ وہ کہیں اس کے فیصلے پر اثرانداز نہ ہوجائے، اسی طرح ووٹروں کے حوالے سے بھی انھوں نے حکم جاری کردیا کہ ان پر اثرانداز ہونے کے لئے کوئی اشتہاربازی نہ ہو، کوئی تشہیر نہ ہو، کسی نے اپنے ذہن کو صاف ستھرا رکھتے ہوئے ، کسی چیز سے متاثر ہوئے بغیر، آرام وسکون اور تسلی سے اپنا ووٹ کاسٹ کرے۔

ایسا ہی بل ہمارے ہاں منظورہوناچاہئے۔ یادرہے کہ ان کے پانچ سو ڈالر کا مطلب ہوتاہے پچاس ہزار روپے پاکستانی۔ ہمیں کم ازکم کینیڈین پارلیمنٹ ہی کو اپنے سامنے رکھ لیناچاہئے۔ بنگلہ دیش نے قانون پاس کیا، جس کے تحت ہرعام حلقہ میں اخراجات کی حد دولاکھ روپے رکھی ، پہاڑی علاقے میں تین لاکھ روپے جبکہ شہری علاقے میں ایک لاکھ روپے، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی شرط رکھی کہ وہ اخراجات انتخابی مہم کے لئے مخصوص بنک اکاؤنٹ کے ذریعے ہوں گے، یہ بات ہمارے قانون میں بھی شامل ہے، پارٹی، دوست احباب اس کے حق میں مہم چلائیں گے تو ان کے اخرجات بھی اسی کے انتخابی اخراجات میں شامل ہوں گے۔

ہمارے ہاں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اشتہارچھوٹے کئے جائیں، اخبارات میں اشتہارات چھپیں ، الیکٹرانک میڈیا پر کمپین پر پابندی لگادینی چاہئے۔ ہمارے ہاں بھی انتخابی اخراجات کو مانیٹر کرنے کے بڑے سخت قانون موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا، انتخابات کے دنوں میں الیکشن کمیشن کی باگ دوڑ ریٹرننگ افسروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے،ہرحلقے میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کی ذمہ داری ریٹرننگ افسر ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر پر ہوتی ہے یا اس کمیٹی پر جو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بنائی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں ادارے اشرافیہ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بہت سے لوگوں نے کی ، ضمنی انتخابات میں بھی خلاف ورزی کی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ عمل درآمد کرانے کی خواہش بھی نہیں ہے۔

بس! رسمی کارروائی ہوتی ہے، بھارت میں اگرکوئی پارٹی ضابطہ اخلاق کی پابندی نہ کرے تو الیکشن کمیشن اس پر پابندی عائد کردیتاہے۔وہاں فیصلے ایک دو دن میں کردیتے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس ہے، ابھی تک کاغذی کارروائی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں نوٹس پر نوٹس جاری ہوتے رہتے ہیں، بھارت میں نوٹس جاری کیا جاتاہے ، اگرپارٹی سربراہ نہیں آتا تو اس کی پارٹی کو کالعدم قراردیدیاجاتاہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں