العربیہ کا لفظ بلیک بورڈ پر

قصہ ہمارے عربی سیکھنے کا (قسط سوم)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قدسیہ جبیں

اب زبان سیکھنے کے مرحلے میں سب سے طاقتور محرک اندرونی شوق تھا جسے استاد کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے پر لگا دئیے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ مناسب رہنمائی نے پُر پیچ راستوں کو ہموار کر دیا تھا۔

ہماری زبان کی کلاس پھلجھڑیوں کا گلدستہ ہوا کرتی تھی۔ استاد گندم سے متعلق سوال کر رہا ہے اور شاگرد چنے کے فوائد پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ کئی کئی جگہوں پر آدھا آدھا گھنٹہ اٹک گئے تو اٹک گئے۔ نہ گاڑی آگے بڑھ رہی ہے نہ پیچھے ہٹنے پر تیار ہے۔

ایک بار ہماری ایک چینی ہم جماعت لفظ ” ندامت ” پر ایسا اٹکی کہ پوری جماعت مع استاد طرح طرح کے حربے استعمال کر کے سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے اور محترمہ ہر دفعہ ایک نیا مطلب سمجھ رہی ہیں جس کا ندامت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ آخرکار کوئی آدھ پون گھنٹے کی مشقت کے بعد بیچاری نے سمجھانے والوں کی بےچارگی اور مشقت دیکھ کر کہہ ہی دیا کہ اب کہ سمجھ آ گئی حالانکہ استاد صاحب ہنوز غیر مطمئن تھے کہ سمجھی ومجھی کوئی نہیں بس! ہماری حالت پر ترس آ گیا ہے ۔

اس ضمن میں کئی لطیفے کمرہ جماعت سے نکل کر چار دانگ جامعہ میں پھیل چکے تھے ۔ اور سینئرز اپنی اپنی محفلوں میں ان سے حظ اٹھایا کرتی تھیں۔

ہماری ایک دوست کا لطیفہ تو بہت ہی مشہور ہوا ۔ محترمہ نئی نئی یونیورسٹی میں وارد ہوئی تھیں اور اپنی بہن جو کہ کافی سینئر تھیں، کےہمراہ فیکلٹی ڈین استاد عبدالتوب کے دفتر گئیں۔ استاد صاحب نے طالبہ کا مسئلہ سن کر ” تفضلی” کہہ کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے بہن کے ہمراہ بیٹھتے ہی ان سے کان میں پوچھا: ” تفضلی ” کا کیا مطلب ہے ؟ "
بہن نے حسب موقع مفہوم گوش گزار کیا: ” بیٹھ جائیے” ۔ اب انہوں نے ذہن نشین کر لیا۔

کچھ ہی دن گزرے تو اب محترمہ کو خود کسی کام سے دفتر جانا پڑ گیا ” اتفاق سے دفتر کے اوقات اور ان کی عربی کی کلاس کے اوقات ایک ہی تھے۔ پہلے استاد سے اجازت حاصل کرنے کے لیے جملہ رٹا گیا ۔ جب اجازت لینے کا وقت آیا تو وہی جملہ جو صبح سے زیر لب دہرا رہی تھیں اونچی آواز میں استاد کے قریب جا کر کہہ دیا۔ وہ غالباً کسی کام میں مشغول تھے سو اسی مصروف انداز میں انہوں نے انہیں ” تفضلی ” کہہ کر اجازت مرحمت فرمائی۔

اور یہ محترمہ جلدی سے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ اندر ہی اندر پیچ و تاب بھی کھا رہی ہیں کہ مین کیمپس والی گاڑی نکل جائے گی کیا کروں ۔ دوبارہ جی کڑا کر کے اپنی نشست سے اٹھیں اور ڈری سہمی آواز میں پھر وہی رٹا ہوا فقرہ دہرایا۔ استاد نے پھر وہی ” تفضلی ” کہا اور بقیہ طالبات کی جانب متوجہ ہو گئے ۔ محترمہ دوبارہ بیٹھ گئیں۔ آخر تیسری بار جب یہی عمل دہرایا گیا تو استاد صاحب نے ذرا ڈپٹ کر دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہیں نکال باہر کیا۔

بے ساختہ لطیفوں پر گو کمرہ جماعت میں طالبات خوب ہنس لیتی تھیں لیکن استاد صاحب بالکل سنجیدہ مشکل میں پڑی طالبہ کی ہمت بندھانے اور مدد کرنے کو مستعد۔ اس وجہ سے کلاس کا ماحول بہت حوصلہ افزا ، فرحت بخش اور ہلکا پھلکا ہوتا تھا۔ البتہ لطیفوں اور اٹکنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ وہ لفظ ، جملہ یا ترکیب اپنے درست استعمالات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ذہن نشین ہو جاتی۔

دوسرے سمسٹر میں استاد عطیہ نے تعبیر اور تلخیص کی بہت ہی عمدہ مشق کروائی جو آج بھی کئی امور میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ زبان ختم ہوئی تو مختصر سا سمر سمسٹر آ گیا۔
اب ہم نے مضامین کا چنائو کرنا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ اس سمسٹر میں بہت ہی کم مضمون آفر ہوتے تھے۔ اس لیے اکثر لوگ یہ دورانیہ آرام سے گھر گزارتے ۔ ہماری بہن چونکہ اس بار یہ سمسٹر لے رہی تھیں اس لیے ہم نے بھی دو مضمون رکھ لیےجن میں سے ایک عربی زبان و ادب سےمتعلق تین لازمی مضامین میں سے ایک تھا۔

عمومی طور پر ان مضامین کی ترتیب یوں ہوا کرتی تھی یا ہونی چاہیے تھی۔ پہلے گرامر کے قواعد یعنی النحو الواضح ، پھر بلاغہ اور پھر النصوص الادبیہ ۔ اس سمسٹر میں چونکہ بہت سی سینئرز نے خاص طور پر النصوص الادبیہ آفرکروایا تھا اس لیے ہم نے بھی مجبوراً نحو و بلاغہ سے گزرے بغیر وہی رکھ لیا ۔ شریعہ اور اصول الدین کی سینئرز سے بھری کلاس میں ہم اکیلے نو آموز تھے۔ شروع کلاسز میں کچھ اجنبیت کا احساس ہوا لیکن ہماری مصری استانی مادام زبیدہ نے بہت جلد اپنی محبت و شفقت سے اس احساس کو رفع کر دیا۔

نصوص پڑھتے ہوئے ہمیں حقیقی معنوں میں بہت لطف آیا۔
مختلف ادبی تحریروں کے ٹکڑے ، شعر اور قصیدے ۔
اس مضمون کو پڑھنا ایک پرکیف احساس کے طور پر ہمیشہ یاد رہے گا۔

خصوصا حطیئة کا مشہور قصیدہ ” قصة كرم” .
” و طاوى ثلاث عاصب البطن مرمل
ببيداءلم يعرف بها ساكن رسما”

چالیس پینتالیس طالبات کی کلاس میں سے ہم واحد طالبہ تھے جس نے اسے پڑھنے کے بعد یاد کر لیا۔
اور اگلی کلاس میں کھڑے ہو کر درست لب و لہجے اور تلفظ سے سنانے پر استانی کی جانب سے بہت سی شاباش اور نقد انعام کے حقدار ٹھہرے ۔ مادام زبیدہ بعد میں بھی جہاں ملتیں ، ہمارا کندھا تھپتھپا کر یہی کہا کرتیں : ” میں پھر تم سے حطيئة کا قصیدہ سننا چاہتی ہوں۔ "

سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے قیمتی اساتذہ ملے لیکن مصر کی سرزمین سے آنے والے کبھی نہ بھولیں گے کہ انہیں بنجر زمین پر پھول کھلانے کا کیا خوب ہنر آتا تھا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں