منظورپشتین کا جلسہ سے خطاب

کیا ہم یورپی اقوام سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فیض اللہ خان

بچہ باغی ہوکر گھر کی بدنامی کا سبب بننے لگے تو باپ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں اسے عاق کرکے دنیا جہان میں اشتہار شائع کروا دے کہ اس ناہنجار سے میرا کوئی تعلق واسطہ نہیں یا پھر تنہائی میں بیٹھ کر اپنے روئیے ” پالیسی ” اور حرکتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کہ کہیں بچے کے بگڑنے کا سبب میں تو نہیں جس کی وجہ سے محلے میں موجود میرے دوست دشمن اور کچھ دوست نما دشمن یا رشتہ دار بچے کو میرے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

یہ تو سامنے کی بات ہے کہ بچے دو وجوہات کی بنیاد پہ بگڑتے ہیں: حد سے زیادہ لاڈ پیار یا بیجا سختی ، جب تک معاملات میں اعتدال اور توازن ہوگا تو بچے بھی ٹھیک سمت میں چل رہے ہوں گے اور کسی محلے دار کو شرارت کا موقع بھی نہیں ملتا ۔

باقی انسان بہت کمزور ہے مشکل میں پڑ جائے تو خدا تک کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، اس کے گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر انسان سیدنا ایوب جیسا صبر یا رابعہ بصری کی طرح متقی نہیں ہوتا کہ تکالیف پہ صبر و شکر ہی کرتا جائے۔ ایسے میں جب انسان خدا سے تعلقات خراب کرنے پہ تل جائے تو باپ بیچارہ کیا بیچتا ہے اور پھر بدقسمتی سے اس کی غلطیاں بھی نکل آئیں تو آپشن کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔

باپ سمجھدار ہو تو خامیاں تسلیم کرکے بغاوت پہ آمادہ بچے کو اچھے سے گھر کا حصہ بناتا ہے۔ فیصلوں میں شریک کرتا ہے، مشورہ لیتا ہے اور تجاویز اچھی ہوں تو گھر کی پالیسی میں شامل کرلیتا ہے ۔

ریاست ماں بھی ہے باپ بھی، بغاوت پہ آمادہ بچے بھی اسی کے ہیں کیونکہ انہیں ریاست ’’ہمارے بچے ‘‘ کہہ چکی ہے تو پھر آگے بڑھیں، مسائل حل کریں جو جائز مطالبات ہیں آئین و قانون کے نیچے ہیں انہیں پورا کریں جو نہیں کرسکتے اس کی بابت بچوں کو شفقت سے سمجھائیں کہ بس سے باہر ہیں ۔

بچوں کو گلے لگائیں انہیں محبت دیں۔ اور ہاں بچوں کے شکوے بجا ہیں، مسائل سے کسی کو انکار نہیں، ان کا غصہ سر آنکھوں پہ، انہوں نے جنگیں دیکھی ، تباہ حال گھر دیکھے، ہجرتیں کیں، پیاروں کے لاشے دیکھے، گمشدگیاں سہہ رہے ہیں اس سب کے بعد لہجے میں توازن نہیں رہتا { آسان فارمولا یہ ہے ان کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں تو معاملات سمجھ آنے لگیں گے۔ ہمارا مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری ہے ان کا عزت سے زندگی }

لیکن اس کے باوجود بچوں سے اپیل ہے کہ جہاں اسٹیج سے ایک نعرہ ترک کرکے انہوں نے مفاہمت کا اشارہ دیا ہے، وہیں کچھ نسلی تعصب کو ابھارتے نعرے بھی چھوڑنا ہوں گے۔ کسی کے رنگ نسل کی تضحیک اعلی انسانی اقدار کے منافی ہے۔ یاد ہے نا کہ بنگالیوں کو ہم کالے چھوٹے قد والے کہہ کر پکارتے تھے ؟؟ جب ان کو یہ کہنا غلط تھا تو آج احتجاج پہ آمادہ بچے کیسے کسی دوسری قوم کو اس قسم کے گھٹیا طعنے دے سکتے ہیں ؟؟؟؟

ریاست اپنی انا سے باھر نکلے تاکہ محلے دار صورتحال کا فائدہ نہ اٹھا سکیں اور ’’بچے‘‘ انہی مطالبات اور نعروں تک رہیں جن کے ساتھ کھڑا ہونا تمام پاکستانیوں کے لئیے آسان ہو۔

کسی کو غدار ایجنٹ ملحد ، لنگ مار یا کالے منہ والے کہہ دینے سے انا اور جذبات کی تسکین تو ممکن ہے لیکن یہ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ۔

یورپی اقوام ایک دوسرے کے کروڑوں شہری مار کر آج انسانوں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہیں تو کیا لازمی ہے کہ ہم اپنے گھر میں جنگوں کے ذریعے ہی معاملات سلجھائیں؟ کیا ان کے تجربے سے سیکھنا ممکن نہیں ہے ؟؟؟؟

آگے بڑھیں تلخیاں ایک طرف رکھ کر مسائل کے حل کی طرف چلیں۔ یہی پاکستان کی ترقی کا راز ہے ورنہ دائروں کا سفر ویسے بھی مدت سے مقدر ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں