سوما کی دنیا کیسے بدلی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دنیا تب بدلتی ہے جب بچے تعلیم حاصل کرناشروع کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم نیپال کے ایک دورافتادہ گائوں میں بیٹھی ایک ان پڑھ لڑکی سوما کو خوب سمجھ آئی۔ جس سکول سے اس نے پڑھا، وہاں جماعت دھم کے کمرہ کے باہر کھڑی اپنی کہانی سنارہی تھی۔ وہ بظاہر ایک عام سی لڑکی لگتی تھی لیکن حقیقت میں وہ انتہائی غیرمعمولی صلاحیتوں کی مالک تھی، بے مثل جدوجہد اس کی زندگی کا عنوان ہے۔

نیپال کا ضلع باردیا نہایت خوبصورت علاقہ ہے، یہاں کھیت ہوتے ہیں یاپھر جنگل ، ان دنوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے دیہات کی صورت میں کہیں کہیں انسانی آبادی نظرآتی ہے ۔سوماتھارو کا تعلق اسی علاقے سے ہے، وہ چٹے ان پڑھ والدین کے سات بچوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ ابھی چھ برس کی تھی کہ اسے ایک معاہدے کے تحت ایک جاگیردارکے گھر میںکام کاج کیلئے بھیج دیاگیا۔ دراصل نیپال کے دور دراز کے دیہات میں غربت اس قدر زیادہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی خوراک کا بندوبست کرنے میں بھی مشکل محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ مجبوراً انھیں کسی قدر معاشی ’’سکھ ‘‘ حاصل کرنے کیلئے شہروں میں امیر یا متوسط طبقہ کے خاندانوں کے ہاتھ ’بیچ‘ دیتے ہیں حالانکہ انھیں بدلے میں رقم بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوتی، محض 5000سے7000 روپے (پاکستانی)کے برابر۔ اس غلامی کی ایک دوسری قسم میں مختلف لوگ امیر خاندانوں سے ادھار رقم لیتے ہیں جو واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، ایسے میں انھیں اپنی بچیاں ان خاندانوں کے ہاں جبری مشقت کے لئے بھیجنا پڑتی ہیں۔ ان کا مالی اعتبار سے مضبوط خاندانوں سے رابطہ کرانے کیلئے باقاعدہ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں۔یادرہے کہ ان کے درمیان معاہدہ زبانی ہی ہوتاہے۔یہاں ان بچیوں کو کئی کئی گھنٹے کام کاج کرناپڑتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ بڑی ہوتی ہیں تو انھیں گھر ہی میں موجود جنسی درندوں کے ہتھے چڑھنا اور اس پرخاموش بھی رہنا پڑتا ہے۔ سوما بھی تین مختلف گھروں میں کام کرتی رہی۔ پھربارہ برس کی عمر میں وہ اپنے گھر واپس آئی۔ اس وقت اس کی حالت یہ تھی کہ اسے مقامی زبان بولنا بھی نہیں آتی تھی۔

امیر خاندانوں کے ہاں رہتے ہوئے اس نے ان کے بچوں کو سکول اورکالج میں جاتے دیکھا، اسے ان طلبہ وطالبات کی زندگی پر خوب رشک آیا۔ گائوں آئی تو اس نے بھی سکول جانے کی ضد پکڑ لی۔اس کا ایک بڑا بھائی نویں جماعت تک پڑھا، دوسرے نے ایس ایل سی کا امتحان دیا، ان کے علاوہ اس پورے گھرانے میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں ہے۔2008ء میں سوما نے ایک این جی او ’’روم ٹو ریڈ‘‘(Room to Read) کے تعلیمی پروگرام برائے طالبات کے تحت داخلہ لے لیا۔ سولہ برس کی ہوئی تو وہ ساتویں کلاس تک پہنچ چکی تھی۔پاکستانی معاشرے میں زیادہ ترسرخی پائوڈر والی این جی اوز ہی ہوتی ہیں جو مغرب سے ڈالر کمانے کیلئے بنتی ہیں، رفاہی اور فلاحی کاموں کے بجائے سال کے چند مخصوص دنوں میں صرف شورشرابا کرتی ہیں۔ کٹھمنڈو میں ہیڈکوارٹر رکھنے والے این جی او ’’ روم ٹو ریڈ‘‘ نے سوما کی مالی مدد کیلئے بھی ایک تدبیر کی ، اسے اسی تعلیمی پروگرام کو معاشرے میں متعارف کرنے کیلئے ذمہ داری سونپ دی گئی۔ سوما نے ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی ایک کامیاب فرد بننے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیلئے مختلف کلاسز میں شامل ہونا شروع کردیا تاکہ معاشرے کے مرکزی دھارے کا حصہ بن جائے۔ موخرالذکرپروگرام میں شرکت نے سوما کی خوداعتمادی میں بے حد اضافہ کیا۔ اس نے اپنے بل بوتے پر اپنے آپ کو کھڑا کرنے کا عزم کیاہواتھا۔ وہ کہتی ہے:’’ میں نے اپنی ماں سے پوچھاکہ آپ نے اپنے بیٹوں کو بھی جنم دیا اور مجھے بھی،پھر ہمارے درمیان فرق کیوں روا رکھتی ہیں؟ ہم سب برابر ہیں، میں بھی وہی مواقع حاصل کرنا چاہتی ہوں جو انھیں حاصل ہیں۔‘‘ اس کے بعد میرے والدین کا رویہ آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔

سوما اب بیس سال کی ہے۔ وہ سیکنڈری سے گریجویشن کلاسز کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگلے سال اس کا امتحان ہوگا، وہ ہیلتھ ایجوکیٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے معاشرے کی باقی تمام لڑکیوں کو بھی مضبوط و خود مختار بنانا چاہتی ہیں۔ اب باردیا میں مزید650 سے زائد سوماکی طرح بیچ دی جانے والی لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

سوما نے ایک نظم لکھی ہے جس میں اس نے اپنی جدوجہد کا ذکر بڑے خوب صورت انداز میں کیاہے۔یہ گیت ان ہزاروں لڑکیوں کی فریاد بھی ہے جو اب بھی نیپال کے دیگر اضلاع بانکی، کیلائی، اور کنچان پورمیں ظلم واستحصال کی چکی میں بری طرح پس رہی ہیں۔ گزشتہ برس دنیا کو بدل دینے والی خواتین کا سالانہ اجتماع نیویارک میں ہوا، سوما اس میں بھی شریک تھی۔ اس تقریب میں پانچ فٹ کی اس لڑکی نے سٹیج کے عین وسط میں کھڑے ہوکر اپنی یہ نظم پوری دنیا کو سنائی:

میری ماں اور باپ بھی کتنے خودغرض تھے

انھوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا

انھوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا

ماں! تم نے کبھی دیکھا کہ میں کس طرح ظلم کی چکی میں پس رہی ہوں

ابا! تم نے کبھی دیکھا کہ میں کس طرح ظلم کی چکی میں پس رہی ہوں

پھرتم نے مجھے کیوں جنم دیا؟

میرے بھائی سکول جاتے ہیں

تاہم میں بدقسمت ہوں، میں ایک جاگیردار کے گھر میں غلام ہوں

جاگیردار کی بیوی کے ہاتھوں روز مارکھاتی ہوں

روز مارکھاتی ہوں

روزمارکھاتی ہوں

میری ماں اور باپ بھی کتنے خودغرض تھے

انھوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا

انھوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا

تقریب کے اختتام پر سوما سے انٹرویو لینے والے اخبار نویسوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ایک اخبارنویس نے جب سوما سے پوچھا کہ آنے والے برسوں میں وہ اپنے آپ کو کہاں دیکھ رہی ہے؟ تو اس نے بغیر توقف جواب دیا کہ وہ ایک ایسی تنظیم بنائے گی جو خواتین کے حقوق کیلئے کام کرے۔یہ ہمہ پہلو کوششیں ہیں ایک دیہاتی لڑکی کی جس نے اپنے عزم وہمت سے اس قدر چھوٹی عمر میں خواتین کے عالمی منظرنامے پر اپنی جگہ بڑی خوب صورتی سے بنالی۔دراصل اسے یہ طاقت اس کی تعلیم نے دی ہے جس کے بل بوتے پر اس نے نیپال کے بڑے سنگین مسئلے کو پوری دنیا والوں کی نظروں میں لاکھڑا کیا ورنہ وہ اب بھی نیپال کی دیگر سینکڑوں لڑکیوں کی طرح ظلم، استحصال اور غربت کا شکار ہوتی۔ اس کی تعلیم نہ صرف اس کی بلکہ بہت سوں کی دنیا تبدیل کردی ہے۔

امریکہ جانے کا موقع کیسے پیدا ہوا؟ دراصل کچھ لوگوں کا ایک گروہ سوما کے گائوں میں ’’کام لاری ‘‘(Kamlari) کی ظالمانہ روایت کے بارے میں ڈاکومنٹری فلم بنانے آیاتو ان کے سامنے سوما نے اپنا مذکورہ بالاگیت گایا جس میں اس پر ہونے والے ظلم کا بیان تھا۔اس نظم نے ڈاکومنٹری بنانے والوں کو بہت متاثر کیا ، پھر یہی نظم اس کے امریکہ جانے کا سبب بن گئی۔ ڈاکومنٹری بنانے والے ٹیم واپس گئی تو معروف مغربی میگزین ’’نیوز ویک ‘‘ نے سوما کو دنیا کی غیرمعمولی باصلاحیت خواتین کی فہرست میں شامل کردیا۔ اور اگلے سال عالمی یوم خواتین کے موقع پر اپنے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں اسے مدعو کرلیا۔

نیپال کے ایک غیرترقی یافتہ گائوں میں پلنے والی یہ لڑکی جب امریکہ پہنچی تو اس نے ایک نئی دنیا دیکھی اور اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئی، وہ سوچتی کہ یہ لوگ اتنے بڑے شہروں کو کیسے صاف ستھرا رکھ لیتے ہیں۔ امریکہ جانے سے پہلے سوما کو کبھی گھر سے باہر کا کھانا کھانے کا موقع نہیں ملا تھا، چنانچہ نیویارک میں گزرنے والے پہلے دو دنوں میں اس نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ تب منتظمین نے خصوصی طورپر اس کیلئے ایک انڈین ریسٹورنٹ تلاش کیا، تب اس نے کھانا شروع کیا۔ اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اس کا گیت سن کر اسے کہا کہ ’’یہ کام جاری رکھو‘‘۔ سوما کہتی ہے کہ میں مسز ہلیری کے یہ الفاظ آج تک بھول نہیں سکی۔ ہلیری نے میرے گائوںکسی وقت آنے کا وعدہ کیا،اس نے مجھے مزید محنت کرنے کی نصیحت کی اور یہ بھی کہا کہ وہ میرے گائوں کے غریب لوگوں کی بھی مدد کرے گی‘‘۔

جب وہ امریکا سے واپس آئی تو اخبارنویس اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے اس کے گھر کے باہر جمع ہوگئے۔ وہ میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویودینے میں اس قدرمصروف رہی کہ اپنے گھروالوں کے ساتھ ڈھنگ سے بیٹھنے کا اسے کئی دن تک بالکل موقع ہی نہ مل سکا۔ وہ اپنی سابقہ زندگی اور امریکہ میں گزرے دس دنوں کی بابت بتاتی رہی۔دوسری طرف دیہاتیوں اور دوستوں کا جھمگٹا بھی لگا ہواتھا جو سب کے سب اس سے پوچھ رہے تھے کہ امریکا کیسا ہے؟ وہاں کیاکچھ ہوتاہے اور اس نے وہاں کیسے وقت گزارا؟ سوما کاخیال تھا کہ اپنے تجربات، مشاہدات اور خیالات ان سب لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا میرا فرض ہے، وہ مزے لے کر بتارہی تھی کہ امریکہ جانے سے پہلے اور وہاں سے آنے کے بعد یہاںدیہاتیوں کے رویے میں زمین آسمان کا فرق نظرآیا۔ پہلے وہ مجھے انتہائی حقارت سے دیکھتے تھے لیکن اب سب کے سب میری خیروعافیت جاننے کیلئے بے چین تھے۔ وہ مسلسل مختلف سکولوں میں جارہی ہے، اپنے سکول میں بھی گئی۔وہاں جا کر بھی امریکا کاسفرنامہ سناتی رہی۔وہ کہتی ہے کہ ہمارے گائوں کے کسی بھی فرد نے آج تک امریکہ نہیں دیکھا، میں پہلی مثال بنی اس لئے ہرکوئی اس ملک کے بارے میں متجسس تھا۔

سوما کے خاندان میں سے کسی نے ہوائی جہاز نہیں دیکھاتھا۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی بس میں سوار ہوکر دارالحکومت کھٹمنڈو بھی نہیں گیاتھا، ایسے میں وہاں تک بس کی سواری اور پھر جہاز میں بیٹھنا ایک خواب ہی تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے صرف نیپال گنج یاپھر بردیا تک کا ہی سفر کیاتھا۔ سوما کے 66سالہ والد ہریام تھارو کاکہناتھا:’’ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ میری بیٹی امریکا بھی دیکھ آئے گی۔ میں ایک دوسرے آدمی کی زمین پر کام کرکے اپنے خاندان کو پال پوس رہاتھا تاہم ایک وقت ایسا آیا کہ جب گھر والوں کیلئے دووقت کے کھانے کا انتظام بھی مشکل ہوگیا، تب میں سوما کو ’’کام لاری‘‘ کی روایت کے تحت جاگیردار کے گھر میںبھیجنے پر مجبور ہوگیا۔تاہم اگلے چھ برسوں تک جاگیردار نے اس کا کوئی پیسہ ادانہ کیا۔‘‘ اس موقع پر سوما کہنے لگی : ’’ بس! وہ سال میں ایک بار کپڑوں کا ایک جوڑا دیتے تھے‘‘۔ بعد ازاں ایک تنظیم’’ فرینڈز آف نیڈی چلڈرن‘‘ (Friends of Needy Children) نے سوما کو جاگیردار کے گھر سے بازیاب کرایا۔اس کے بعد اسے پڑھنے کا موقع ملا۔ ’’ فرینڈز آف نیڈی چلڈرن‘‘ ہی نے اس کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ لے لیا۔

سوما کہتی ہے کہ جب اس نے اپنی لکھی ہوئی نظم پڑھی تو اس کے بعد اس کے اندر آگے بڑھنے کی لگن بہت بڑھ گئی۔ جب وہ2007ء میں جاگیردار گھرانے کی قید سے رہا ہوئی تو اسے اپنے ہی گائوں کے سرسوتی ہائیرسیکنڈری سکول میں داخلہ مل گیا۔اس وقت اس کی عمر12برس تھی۔ سوما کہتی ہے:’’جب میں جاگیردار گھرانے کی قید سے رہاہوئی تو میں نے سمجھا کہ میری زندگی کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے، تاہم جب میں امریکہ گئی تو میں نے اپنی زندگی کے لئے بہت کچھ کیا اور سیکھا۔

غربت اب بھی اس کے گھر میں موجود ہے۔ وہ جو کچھ کماتی ہے، وہ اس کی اپنی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرنے پر صرف ہوجاتاہے۔ اس کے علاوہ گھر یں کوئی اور کمانے والا بھی نہیں ہے۔ جب اس نے ہرایک کو اپنے سفرامریکہ کی پوری تفصیلی روداد سنالی تو اس نے دوبارہ سے کام پر جانا شروع کردیا۔ اسی طرح اسے ایس ایل سی(سیکنڈری سکول کا فائنل امتحان) بھی دینا تھا اور ’’گیٹ‘‘ کا بھی، وہ دونوں امتحانات میں شریک ہوئی حالانکہ اس کی خاص تیاری بھی نہیں تھی۔

سوما اب ’’کام لاری‘‘ کی روایت کے خلاف پوری قوت سے جدوجہد کررہی ہے۔ اس نے ’’کام لاری ڈویلپمنٹ فورم‘‘ بنالیا ہے جس کا کام ہی ایسے بچوں کو رہاکراناہے۔ وہ کہتی ہے’’ اب مجھے امید ہے کہ کوئی بھی جاگیرداروں کے ہاں میری طرح جبری مشقت کا شکار نہیں رہے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں