نعمت اللہ خان، سابق ناظم کراچی

جذبہ اور کھلی آنکھیں، یہ ہیں نعمت اللہ خان

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاروق عادل:
انیس سو پچاسی چھیاسی کا طالب علموں پر بہت بھاری گزرا۔ عام انتخابات ہو چکے تھے، اسمبلیاں کام کر رہی تھیں، گویا راوی چین لکھ رہاتھا لیکن دو ایک برس پہلے طلبہ تنظیمیں جن پر پابندی عاید کی گئی تھی، تاحال پابندیوں کا شکار تھیں۔ اس زمانے میں مزاحمت کرنے والے جن طلبہ کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی، ان میں سے کچھ ابھی جیل میں تھے،

لہذا نوعمروں کے منہ کا ذائقہ تلخ تھا۔ شاید یہی سبب رہا ہوگا کہ نعرے لگاتے وقت گردن کی رگیں پھول جاتیں اور کچھ ایسے الفاظ بھی زباں سے نکل جاتے جن میں کچھ لوگوں کے نام ہوتے، کچھ جانوروں کا تذکرہ ہوتا اور توہین کے پیمانوں تک کو بدل دینے کی خواہش۔

عین اسی زمانے کا ذکر ہے، داؤد انجینئرنگ کالج کے وسیع آڈیٹوریم میں مختلف طلبہ تنظیموں کا ایک کنونشن ہوا، نعمت اللہ خان کو پہلے پہل میں نے وہیں دیکھا اور سنا۔ تقریریں تو بہت سی اس موقع پر ہوئیں، ان میں سے کچھ نے زخمی اور دکھی طلبہ کے جذبات کی لو کو مزید بھڑکا دیا اور کچھ نے بھڑکتے جذبات پر پانی ڈالنے کا کام کیا، ان سب میں ایک شخص سب سے جدا نکلا۔ یہ نعمت اللہ خان تھے۔

کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نعمت اللہ خان کی تقریر جذباتی نہ تھی، وہ جذبات کا بھڑکتا ہوا الاؤ تھی لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی تاثیر میں کچھ ایسا بھی تھا جس سے بے چینی، اضطراب اور غصے پر جیسے شبنم کی پھوار سی پڑ جائے۔ این ایس ایف کا ناصر کریم میرے پہلو میں بیٹھا تھا، ٹہوکا دے کر کہنے لگا، کمال شخص ہے یہ، اس شخص نے تو ہمارے دل کی بات کہہ دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھا دیا کہ غصے عالم میں بھی آنکھیں کھلی رکھنا۔

یہ زمانہ ہماری نسل کے لڑکپن اور نعمت اللہ خان کے سیاسی کیرئیر کے عروج کا تھا کہ ان دنوں وہ سندھ اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بہت متحرک اور نمایاں مقام رکھتے تھے۔ اس ایوان میں حزب اختلاف ہمیشہ کی طرح منقسم تھی۔ عبداللہ حسین ہارون اسپیکر کے منصب سے فراغت کے بعد قائد حزب اختلاف بن گئے لیکن اپنی لا ابالی طبیعت کے باعث ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں کی مثال بنے ہوئے تھے،

اس لیے یہ ذمہ داری بھی خان صاحب ہی کو اٹھانا پڑی، جس کا کام، اسی کا نام، لہذا لوگوں نے خان صاحب ہی کو قائد حزب اختلاف سمجھا اور کہا، اس پریشانی میں گاہے ہارون صاحب کے دفتر سے اس مضمون کا کوئی بیان جاری ہو جاتا کہ عبداللہ حسین ہارون کیا منصب رکھتے ہیں، یہ سب ہوا لیکن زمینی حقائق اپنی جگہ برقرار رہے۔

یہی زمانہ تھا جب ہماری نسل کے لوگوں نے خان صاحب کو قدرے دور سے دیکھا، یعنی کبھی کہیں تقریر کرتے ہوئے یا کبھی اخبار کے صفحات پر، ٹیلی ویژن اس زمانے میں فقط سرکاری تھا، اس لیے خان صاحب جیسے لوگوں کو ہم اس پر ذریعے پر نہ دیکھ پائے لیکن آنے والے دنوں میں جب ہم لوگوں نے عملی صحافت میں قدم رکھ دیا، انھیں قریب سے دیکھنے کے بہت سے مواقع ملے۔

جنرل ضیا نے پچاسی کی اسلمبلیاں توڑیں تو ملک بھر میں سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ قومی سطح پر اس دور کو بے نظیر نواز کشکمش کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے جو سراسر محاذ آرائی سے عبارت ہے لیکن اس دور میں کراچی پر جو کچھ بیتی، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔ وہ تشدد اور خونریزی کا بدترین دور تھا، کراچی جس کے دریا سے ڈوب کر نکلا، یہی زمانہ تھا جب جماعت اسلامی کراچی کی قیادت ان کے سپرد کی گئی اور انھوں نے اس ذمہ داری کا حق ادا کیا۔

ایم کیو ایم کراچی کی ایک ایسی سیاسی قوت تھی جس کے نشانے پر کوئی ایک جماعت نہ تھی، صوبائی حکومت کی سربراہ کی حیثیت سے پیپلز پارٹی، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو بولنے والے نیز جماعت اسلامی۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد انگریزی استعمار نے مسلمانوں کو خاص طور پر جبر کا نشانہ بنایا، سبب یہ تھا کہ ان سے اقتدار چھینا ہے، لہذا ان کی کمر توڑ دی جائے تاکہ سنبھل کر کہیں خطرہ ہی نہ بن جائیں، کراچی میں کچھ ایسا ہی رشتہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا بھی تھا۔ اس زمانے میں جماعت اور جمیعت والوں نے کتنی لاشیں اٹھائیں، شمار آسان نہیں۔

اس آشوب میں کراچی کی کئی سیاسی حقیقتیں معدوم ہوگئی لیکن جماعت اسلامی کا معاملہ ان سب سے منفرد رہا۔ لسانی اور نسلی عصبیت نے اس کے سیاسی دائرہ اثر کو اگر چہ متاثر کیا لیکن اس کے باوجود یہ جماعت سیاسی میدان میں پوری استقامت سے کھڑی رہی۔

شہر کے سیاسی و صحافی حلقوں میں جماعت اسلامی کی اس سخت جانی کا جائزہ لیا جاتا تو یہ ذکر بھی ہوتا کہ اس جماعت کےمضبوط تنظیمی ڈھانچے میں ہی اس کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ تجزیہ غلط نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر گزشتہ پون صدی میں جو کچھ۔ بیتی ہے، اس کے پس منظر میں بہت زیادہ وزن دار ہے لیکن ایسی گفتگووں کے دوران مجھے ایک تقریرہمیشہ یاد آجاتی،

اس تقریر کا ایک جملہ تھا، مرد میدان وہی ہے جو غصے کے عالم میں بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھے، سیاسیات کراچی کے تین دہائی طویل مشاہدے کے باوصف مجھے گمان سے بڑھ کر یقین ہے کہ اس مشکل شہر میں جماعت اگر پکے پاؤں کھڑی رہی تو اس سب سے بڑا سبب وہ یقیناً وہ آنکھیں بھی رہی ہیں جو شدید غم و غصے کے باوجود کھلی رہیں۔

شہید محمد صلاح الدین نے ڈان کے چیف ایگزیکٹو محمود ہارون صاحب سے جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ایک بار سوال کیا، آخر آپ لوگوں کی توجہ ’حریت‘ پر کیوں نہیں؟ یہ سوال سن کر محمود ہارون کے سرخ و سپید چہرے پر ذرا کی ذرا دکھ کا ایک سایہ لہرا گیا، کچھ دیر وہ خاموش رہے پھر ایک ایسے لہجے میں جس میں اداسی، حسرت اور بے بسی کی کیفیات نمایاں تھیں ، کہا،
صلاح الدین صاحب! جب کوئی اخبار ایک بار بیٹھ جائے تو پھر کبھی کھڑا نہیں ہو پاتا۔

یہ اصول صحافت کی طرح سیاست پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ اس میں واحد استثنا نعمت اللہ خان کی قیادت میں کام کرنے والی جماعت اسلامی ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا گیا کہ 1987 میں شروع ہونے والی ہنگامہ خیر سیاست میں وہ راکھ کا ڈھیر بن چکی لیکن 2002 میں یہی جماعت اسلامی راکھ کے ڈھیر سے اٹھی اور بلدیاتی سیاست پر غالب آگئی ہے،

پتہ یہ چلا کہ بیٹھ جانے والی جماعتیں بالعموم بیٹھ ہی جاتی ہیں لیکن ہمیشہ نہیں، خان صاحب جیسے لوگوں کی قیادت میسر آجائے تو انگڑائی لے کر کھڑی بھی ہو جاتی ہیں، لہذا جماعت اسلامی نے اس زمانے میں پیرانہ سالی کے باوجود شہر کا ناظم اعلیٰ یا میئر بنایا تو کچھ غلط نہیں کیا۔ گزشتہ پندرہ برس کے دوران میں ان کی حکمت سے معمور سیاست اور استقامت پر ان کی جماعت کی طرف سے اس سے بہتر خراج تحسین اور کیا ہوسکتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے دور نظامت بلدیہ ایک ایک پائی کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کی لیکن اس کے ساتھ ہی 43 ارب روپے سے بے شمار ترقیاتی منصوبے بھی اس خوبی سے مکمل کیے کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن گیا۔ ان کی اس خدمت کو لوگ یقیناً ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کریں گے لیکن میری نگاہ میں ان کا کارنامہ کچھ اور ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ شہر کے اندر نقل و حرکت کے لیے آرام دہ میٹرو سروس کا تصور ہمارے ہاں 2008 کے انتخاب کے بعد آیا جب پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنی لیکن نعمت اللہ خان کو تاریخ یہ کریڈٹ ہمیشہ دے گی کہ انھوں 2002 میں کراچی کا میئر بننے کے بعد پاکستان میں سب سے پہلے ائیر کنڈیشنڈ بس سروس شروع کی۔

اس منصوبے کے تحت جیسے ہی شہر کی سڑکوں پر ماحول دوست گرین بس سروس کی پانچ سو بسیں چلنی شروع ہوئی، لوگوں کے رویوں میں ایک خوش گوار تبدیلی آگئی اور کراچی جیسے شہر میں لوگوں نے پہلی بار آرام اور عزت کے ساتھ سفر کیا۔

خان صاحب نظامت سے فارغ ہوئے تو اگرچہ عمر صحت دونوں ہی کا ساتھ دستیاب نہیں تھا، ایسی کیفیات میں ہمارے بزرگ نمازیں پڑھتے ہیں یا پوتے پوتیوں کی شرارتوں سے دل بہلاتے ہیں لیکن خان صاحب مختلف نکلے۔ انھوں نے ڈاکٹر فیاض عالم اور زبیر منصوری جیسے ذہین اور محنتی نوجوانوں کو ساتھ لیا اور بھوک اور پیاس سے بلکتے ہوئے صحرائے تھر میں جا نکلے۔

اپنے دیس کے اس قرئیے میں پانی مشکل سے ہی نکلتا ہے، نکل آئے تو کھاری۔ زبیر منصوری آنکھوں دیکھی کہتے ہیں، جہاں کہیں کنواں کھودنے کے لیے جگہ منتخب کی جاتی، خان صاحب مصلیٰ بچھا کر دو نفل ادا کرتے اور خاموشی سے اٹھ جاتے، پانی ہمیشہ نکلا اور وہ بھی میٹھا۔

گزشتہ اٹھارہ بیس برسوں میں خان صاحب کی نگرانی میں ہزاروں کنویں کھودے گئے ہوں گے، آج خان صاحب جب اپنا مشن مکمل کر کے دوسری دنیا کے باسی بننے جا رہے ہیں تومجھے یقین ہے کہ اس سفر کی پہلی منزل پر فرشتے حوض کوثر کے جام لیے ان کے منتظر ہوں گے۔

(بشکریہ ’آوازہ‘ ڈاٹ کام)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں