خبردار! خسرہ کی وبا پھیلنے لگی، اب ہم کیسے بچ سکتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر توصیف احمد لغاری

خسرہ ایک متعدی وبائی مرض ہے۔ اس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں کئی بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
خسرہ کا شکار عموماً چھوٹی عمر کے بچے ہوتے ہیں جن میں نوماہ سے پانچ سال کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ خسرے کی بیماری ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس بیماری سے بچنا ممکن ہے۔ خسرہ کا وائرس صرف ان بچوں کو متاثر کرتا ہے جنھیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہوتے۔

خسرہ ترقی یافتہ ممالک میں شاذونادر ہی کسی بچے کی موت کی وجہ بنتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں خسرہ بہت سے بچوں کیلیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اگر بیماری کے عالمی اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن 2015 ء میں67ہزار 524 بچے اس بیماری سے متاثر ہوئے، سن2016 ء میں یہ تعداد کم ہوکر16ہزار 846 سالانہ رہ گئی۔
اس حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمار کافی پریشان کن ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں2011 ء میں 4386 بچے متاثر ہوئے،2012 ء میں یہ تعداد بدقسمتی سے کم ہونے کی بجائے بڑھ کر 14687 ہو گئی جبکہ 2012 ء میں 310 بچے اپنی جان سے گئے۔ 2013 ء میں حالات مزید بُرے رہے اور25ہزار401 بچے بیماری سے متاثر ہوئے جبکہ321 بچے لقمہ اجل بنے۔ یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ جہاں باقی دنیا میں اس بیماری کے مریض کم ہو رہے ہیں وہاں پاکستان میں اس کے برعکس مریض بڑھے ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں رپورٹ ہونے والے کیسز حقیقی اعدادوشمار سے کہیں کم ہوتے ہیں لہٰذا اوپر دیئے گئے اعدادوشمار میں صرف وہ بچے شامل ہیں جو کسی طبی مرکز صحت پر گئے تھے اور وہاں سے رپورٹ ہوئے لیکن قوی امکان ہے کہ اس سے کئی گنا زیادہ بچے کسی طبی مرکز پرگئے نہیں یا پھر رپورٹ نہیں ہوئے۔ متعدد بچے اندرون سندھ، بلوچستان، فاٹا اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں متاثر ہوئے اور جان سے گزرگئے لیکن ان سے متعلق اعدادوشمار شاید کسی ادارے کے پاس نہیں ہیں۔ لہٰذا ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رپورٹ ہونے والے اعداد و شمار حقیقی اعدادوشمار سے کافی کم ہوں گے۔

خسرے کی علامات میں بخار اور کھانسی ابتدائی اہم علامات ہیں۔ اس کے ساتھ عموماً آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور ناک سے پانی بہتا ہے۔ پھر سرخ نشان آتے ہیں جو چہرے سے شروع ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ تمام جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ جب سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں تو بخار بہت تیز ہوتا ہے۔ یہ نشان کچھ دن تک مزید بڑھتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سارے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ اس دوران مریض کو مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اگر مرض پیچیدہ نہ ہو تو اگلے کچھ دن میں سرخ دانے ختم ہوجاتے ہیں اور بخار اتر جاتا ہے لیکن اس بیماری سے پیدا ہونے والے نقصانات اور کمزوری کم و بیش تین ماہ تک مختلف اشکال میں اپنے اثرات دکھاتے رہتی ہے۔

خسرہ اگر ہو جائے تو اس کا کوئی براہ راست علاج نہیں۔ مریض کا بخار اور کھانسی کو کنٹرول کیا جاتا ہے، پانی کی کمی سے بچنے کیلیے سیال دیئے جاتے ہیں۔ سانس کی تنگی کے لیے آکسیجن دی جاتی ہے اور مریض کو باقی لوگوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے تاکہ باقی لوگوں کو اس بیماری سے بچایا جا سکے۔

خسرہ کا وائرس نظام تنفس میں بڑھتا، پھولتا ہے اور بہت تیزی سے پھیلتا ہے، پھر مریض کی کھانسی اور ناک اور منہ سے نکلنے والے پانی سے دوسرے انسان تک منتقل ہوتا ہے۔ جب مریض کھانسی کرتا ہے تو کچھ وائرس سے آلودہ چھوٹے چھوٹے قطرے ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وائرس ہوا میں دو گھنٹے تک فعال رہتا ہے اور اردگرد کی چیزوں پر بھی گر جاتا ہے۔ جب کوئی دوسرا انسان اس ہوا میں سانس لیتا ہے تو وہ وائرس کو سانس کی نالیوں میں لے لیتا ہے۔ اس شخص کو اگر حفاظتی ٹیکے نہیں لگے تو اب کچھ دنوں تک اس کو خسرہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتاہے۔ خسرہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں ڈائریا، نمونیہ، آنکھوں کے مسائل، دماغ کی سوزش، جسمانی کمزوری اور چھپے ہوئے انفیکشن کا دوبارہ فعال ہونا اہم ہیں۔ یہ پیچیدگیاں ایسے بچوں میں بہت مہلک ثابت ہوتی ہیں جو بدقسمتی سے پہلے ہی خوراک کی کمی کا شکار ہوں۔

خسرے سے بچاؤ ممکن ہے اور بہت آسان، سستا اور دستیاب ہے۔ خسرے کے دو ٹیکے بچے کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں خسرہ ایک وبائی مرض ہے وہاں کبھی کبھی دو ٹیکوں کے علاوہ بھی خوراک دینا پڑتی ہے۔ خسرے سے بچاؤ کا ایک ٹیکہ 1960ء کی دہائی میں تیار کیا گیا اور اسے اپنا لیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر بہت ساری عالمی تنظیموں نے بین الاقوامی سطح پر خسرے کے خاتمے کے لئے مالی اور طبی تعاون فراہم کیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر بچے کو خسرے سے بچاؤ کے کم از کم دو حفاظتی ٹیکے ضرور لگنے چاہیے۔ پہلا ٹیکہ 9 ماہ اور دوسرا 12 سے 15 ماہ کی عمر میں لگنا چاہیے۔

اگر وبا پھوٹے تو ملک گیر سطح پر ٹیکے کی کچھ مزید خوراکوں کی سفارش کی جاسکتی ہے۔ ماں کا دودھ پلانا اور صفائی کا خیال رکھنا مزید حفاظتی تدابیر ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کے ساتھ ساتھ ماں کے دودھ پلانے کے اعدادوشمار بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان اس وقت ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جن میں تقریباً ایک ملین بچے خسرے کی ویکسینیشن کی پہلی خوراک بھی نہیں لگواتے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پچھلے سال بحیرہ عرب کے 22 ممالک میں پاکستان6494 مریضوں کے ساتھ خسرے کے مریضوں میں پہلے نمبر پر رہا، افغانستان 1511 مریضوں کے ساتھ دوسرے اور شام 513 مریضوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

بچے کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ پرہیز ہمیشہ سے علاج سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ خسرہ سے بچاؤ کا ٹیکہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور پورے ملک میں بالکل مفت دستیاب ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔ اس سے نہ صرف ہماری نئی نسل اس متعدی مرض سے محفوظ ہوگی اور بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچیں گی بلکہ اس بیماری سے متاثر مریضوں پر خرچ ہونے والے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوگی۔ لہذا حفاظتی ٹیکے محفوظ، صحت مند، خوشحال اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں