ملک ریاض کے ٹماٹر، بنی گالہ کے کریلے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سعدیہ ارشد

فریج کا دروازہ کھولتے ہی ہمارے منہ سے ایک زوردار آواز نکلی، گھر کے افراد بھاگے کہ کیا ہوا؟ کیا بم نکلا؟ یا تمھارے اکاﺅنٹ کے بدلے فریج میں کوئی اربوں روپے رکھ کے چلاگیا؟( ارے کاش! ایسا ہوتا دل سے آواز آئی).
ارے نہیں ، ہم نے تو دوپہر کو کیاپکانا ہے ، یہ سوچ کے فریج کھولا تو اس میں رکھی سبزی کی خالی ٹوکری ہمارا منہ ایسے چڑا رہی تھی جیسے ہمارا بینک اکاﺅنٹ ہر مہینے کی تاریخ20 سے منہ چڑانا شروع کر دیتا ہے.
"اب کیا پکائیں؟” یہ سوچ ذہن سے نکل کر جب زبان سے ادا ہوئی تو قریب کھڑے افراد ایسے غائب ہوئے جیسے ”ڈونکی راجہ“ کے سر سے سینگ.
زور سے کہا :”چلو دال بنا لیتے ہیں” تو بہن نے کہا:نہیں بھئی ہم نے نہیں کھانی دال”، گوشت کا کہا تو امی کہنے لگیں "ارے! کوئی سبزی پکا لو، ابھی دل نہیں بھرا گوشت کھاکے.! اب سوال کہ سبزی لائے گا کون؟ تو بہن فوراً بولی: "گھر میں بیٹھی بیٹھی عابدہ پروین نہ بنو، آج ہم لوگ مل کر سب سبزی لینے جاتے ہیں”، خیر مرتے کیا نہ کرتے، برقعہ پہنا، شاپر لیا ، گھر سے نکلنے کے لئےدعا پڑھنے لگے تو امی نے کہا: "جنگ پر نہیں جا رہے ہو تم لوگ جو اتنے زور سے دعائیں پڑھ رہی ہو”.
گھر سے چند قدم نکلے ہی تھے کہ دیکھا سامنے سے ہماری پڑوسن ہانپتے کانپتے چلی آ رہی ہیں، ہم نے فوراً پوچھا:” کیا ہوا؟ باجی سب خیر توہے ناں!” وہ کہنے لگیں: ہاں! ہاں!! بس خیر ہی ہے، تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”، بہن نے فوراً کہا:”بازار جا رہے ہیں سبزی لینے”، پڑوسن پراسرار انداز میں مسکرائیں اور کہا: "ہاں جاﺅ، ذرا تم لوگوں کو بھی پتہ چلے کہ تبدیلی آئی نہیں، تبدیلی تو آ چکی ہے”، یہ کہہ کر وہ چلی گئیں. ہم دونوں بھی آگے بڑھے اور مارکیٹ میں ایسے ڈرتے ڈرتے قدم رکھا جیسے ہم انڈیا کا بارڈر کراس کر رہے ہوں. پہلے ہی ٹھیلے پر نظر پڑی، وہاں ٹماٹر رکھے ہوئے تھے. ابھی ہم نے ہاتھ بھی نہ لگائے تھے کہ سبزی والا زور سے بولا:” باجی! دور سے”، میں نے پوچھا:”کیوں بھائی، یہ ایٹم بم ہیں کیا جو ان سے دور رہیں”، تو کہنے لگا:”یہ ایٹم بم نہیں مگر جب ہم قیمت بتائے گا تو آپ لوگ فوراً بھاگ جائے گا”، میں نے کہا:” نہیں بھائی ہم نہیں بھاگنے والے، ہم پانامہ کے کیسوں کی طرح ذلیل خوار نہیں ہونے والے، تم قیمت تو بتاﺅ” تو کہنے لگا:” باجی! یہ ٹماٹر 120 روپے کلو ہیں”، میں نے کہا:”بھائی! کیا ان میں سونے کے بیج لگے ہوئے ہیں یا ملک ریاض کی زمین میں اگائے گئے تھے؟”
پھر ہم جیسے جیسے آگے بڑھے ہمیں لگا کہ ہم دبئی یا قطر کی مارکیٹ میں سبزی لینے پہنچ گئے ہیں، اللہ اللہ !!ہر سبزی اتنی مہنگی جیسے زم زم کے پانی سےاگائی گئی ہو. کریلے پر نگاہ پڑی سوچا، چلو کریلے لیتے ہیں، قیمت 90روپے کلو، ارے بھائی! کریلے کیا بنی گالا میں لگے ہوئے تھے کہ اتنے مہنگے ہوگئے ہیں، پھر آگے بڑھے پھلیوں پر نظر پڑی، وہ تو سب کو مات دے گئیں، ہم نے بھی ٹھیلے والے سے کہا: "بھائی کچھ لے تو سکتے نہیں، ان سبزیوں کے ساتھ سیلفی ہی لینے دو تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں”.
بہن نے کہا:”ایسا کرو غریبوں کی سبزی ٹینڈے ہی لے لو” ہمیں اس کی رائے میں کافی سا وزن محسوس ہوا،ہم دونوں آگے بڑھے تو ٹینڈے میاں بڑے سٹائل سے مسکراتے معلوم ہوئے، پھر ایسے محسوس ہوا ، جیسے وہ کہہ رہے ہوں:”ہم بھی اب کوئی عام نہیں ہیں، خاص ہوچکے ہیں”، میں نے ٹینڈوں سے پوچھا: "خاص؟ کیا تم نے فیئر اینڈ لولی لگانا شروع کردی ہے”، میرا جملہ سن کر سبزی والے نے ہمیں بڑے مشکوک انداز سے گھورا، بہن نے فوراً اسے مطمئین کرنے کی کوشش کی کہ سبزیوں کی قیمتیں سن سن کر شاید بہن کے دماغ پر اثر ہو گیا ہے”، آدھا کلو ٹینڈے لینے کے بعد ہم آگے بڑھے، اچانک نگاہ اروی پر پڑی، ہم نے بہن سے کہا:”بہت دن ہو گئے اروی نہیں کھائی، چلو اس کو بھی لیتے ہیں مگر اروی تو مشہور ٹی وی ماڈل ماروی کی طرح بڑی ٹیڑھی میڑھی نگاہوں سے ہمیں گھور رہی تھی. پھرمیں نے سوچا کہ اب ان سب کی پین دی سری کرو، ہم بھی دوبدو مقابلے پر آ گئے، ہم نے بھی بڑے اسٹائل سے مقابلہ کیا اور اروی لے کر گھر کی طرف روانہ ہوئے. گھر آ کر امی کو داستانِ سبزی سنائی، جسے سن کر امی نے ہمیں تمغہ جرات سے نوازتے ہوئے کچن میں دھکیل دیا کہ اب پکاﺅ بھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں