لاک ڈائون، نیویارک، امریکا، سنسان بازار

امریکا: مضبوط اور امیر ترین معیشت کا دور ختم ہوا چاہتا ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار، نیویارک:
کرونا وائرس نے چند ماہ میں دنیا کی حالت ایسے بدل دی ہے کہ اس سے پہلے دہائیوں تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی بیک وقت گھر بیٹھ گئی ہو اور پوری دنیا کی معیشت کو صدی کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہو۔ گو تاریخ گواہ ہے کہ قدرتی آفات ہوں یا انسان کی اپنی ایجاد کردہ آفات ہوں ،ان کا معاشی اثر ہمیشہ غریب کے سر پر ہی پڑتا تھا۔ پہلی بار دنیا بھر کے چھوٹے بڑے تمام سرمایہ کار اس بار معاشی بدحالی سے بوکھلا گئے ہیں۔

آئیں ذرا ایک سرسری سی نگاہ امریکا کے شعبہ خوراک کی بدحالی پر ڈالتے ہیں:
امریکا کے کسان اور دودھ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے کاروباری آج کل ہزاروں ٹن خوراک ضائع کرنے پر مجبور ہیں۔ پورے امریکا میں گزشتہ پانچ چھ ہفتوں سے چھوٹے بڑے ریستورانز بند ہیں ، ڈھابہ ٹائپ اور ٹھیلا ٹائپ چھوٹے کیفے ٹیریاز بھی بند ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مال جہاں روزانہ لاکھوں ٹن تازہ دودھ، گوشت، سبزی، پھل آتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ نکلتے تھے ، وہاں اب خریدار نہیں ہیں، ڈیمانڈ بہت کم ہوگئی ہے۔

لوگ جہاں پہلے بےتحاشا خریداری کرتے تھے وہ اب کثرت سے بےروزگار ہونے کی وجہ سے پیسہ خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ حتی کہ بنیادی انسانی ضروریات کی خریدو فروخت میں بھی کمی آئی ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ افراد بے روزگار ہوئے ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جو بمشکل زندگی کی گاڑی دھکیلنے پر مجبور ہیں۔

جب آمدن نہ رہی تو پھل ، دودھ اور دیگر اشیائے خورونوش کون خریدے۔ سی این این اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق روزانہ چودہ ملین لیٹر دودھ ضائع کیا جارہا ہے، جب ریستوران ہی بند ہیں تو دودھ کا استعمال جو کافی، آئس کریم، دہی ، مکھن، ملائی وغیرہ بنانے کے لیے خریدا جاتا تھا وہ اب کوئی خرید نہیں رہا ، تو مجبوراً دودھ کا کاروبار کرنے والے اس دودھ کو ویرانوں اور وادیوں میں بہانے پر مجبور ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ملک کی پانچ فیصد ڈیری مصنوعات روزانہ ضائع کی جارہی ہیں۔ ایک ڈیری فارم کے مالک بتاتے ہیں کہ ڈیری مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کے پاس سٹوریج روم میں دودھ جمع ہے مگر آگے اس کا استعمال نہیں ہورہا تو کمپنیاں کال کرکے ڈیری فارمز کو بتارہی ہیں کہ ہم آپ سے دودھ نہیں لے سکتے کیونکہ ہمارے پاس سٹوریج میں جگہ نہیں ہے۔

ایک عورت کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ ان کے سسر چونتیس ہزار لٹر دودھ زمین پر بہا رہے ہیں کیونکہ کوئی دودھ لینے آ نہیں رہا۔
ایک کسان نے ایک ملین پاونڈ وزن کے برابر پیاز تلف کیا۔
کوئی ہزاروں ٹن گوبھی، مٹر اور دالیں زمین میں گڑھا کھود کر تلف کررہا ،
کوئی سات لاکھ انڈے ایک ہفتے میں ویرانے میں تلف کرنے پہ مجبور۔

یہ چند کہانیاں جو سامنے آئی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ کریں پورے امریکا میں ہی سب کچھ بند ہے اور کتنے ہزاروں یا لاکھوں کسان اپنی مصنوعات روزانہ تلف کررہے ہیں۔ گائیں تو لاکھوں لٹر دودھ دیتی رہیں گی مگر اس دودھ کو خریدنے والے نہیں ہیں تو کتنا نقصان ہورہا ہے۔ بہت سے کسان اپنی مصنوعات فلاحی اداروں کے ذریعے فوڈ بنک میں بھی جمع کرا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو خوراک تقسیم کی جائے اور کم سے کم خوراک ضائع ہو

مگر بڑے بڑے کارگو ادارے فی الحال اپنی سرگرمیاں روکے ہوئے ہیں تو جس خوراک کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے اسے دیگر شہروں یا ریاستوں میں فوڈ بنک میں پہنچانے کے لیے ٹرک، ٹریلر اور کنٹینر ہی میسر نہیں تو مجبوراً دودھ اور انڈے ضائع ہی کرنے پڑ رہے ہیں۔

تین نسلوں سے آلو اور پیاز کی کاشت سے وابستہ ایک کسان کہتے ہیں کہ لوگ گھروں میں آلو کے چپس یا فرائی پیاز رنگز نہیں بناتے بلکہ بڑی بڑی کمپنیاں یہ چیزیں تیار کرکے مارکیٹ میں بیچتی ہیں ، جبکہ اب کاروبارِ زندگی بند ہے تو دکانوں پہ سنیک کے طور پہ بکنے والے صدہا اقسام کے آلو اور پیاز کے چپس کی ڈیمانڈ نہیں ہے اور کمپنیاں بھی کسانوں سے بڑی مقدار میں آلو ، پیاز اور دیگر سبزی نہیں لے رہیں۔

اسی طرح پھلوں کے کاروبار والے اپنا پھل بڑی کمپنیوں کو بیچتے تھے جو تازہ پھل اور جوس تیار کرکے مارکیٹ میں بیچتے تھے، اب پھل اور جوس کی ڈیمانڈ تاحال نہ ہونے کے برابر ہے اور باغوں میں پھل ضائع ہورہا۔

فی الوقت کسان اور ڈیری فارمز والے اپنی مصنوعات کو بچانے اور اپنی سرمایہ کاری کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوئی ترکیب نہیں ڈھونڈ پائے۔ کاروبارِ زندگی بحال ہونے میں اگلے کئی ماہ لگ جائیں گے اور تب تک سرمایہ کاروں کی حالت بُری ہوچکی ہوگی۔

ڈیری مصنوعات بنانے والوں نے تو یہاں تک تجاویز دی ہیں کہ پیزا بنانے والی کمپنیاں اور دکانیں اپنے پیزا میں چیز(cheese) کا استعمال بڑھا دیں تاکہ زیادہ ’چیز‘ استعمال ہو اور ضائع نہ کرنی پڑے۔

نیز بڑی بڑی فیکٹریاں جہاں بھاری بھرکم پلانٹ پر منٹوں میں ہزاروں گیلن دودھ کی پیکنگ ہوتی ہے وہ بھی دودھ کی پیکنگ نہیں کررہے کیونکہ طلب نہیں ہے تو بڑا پلانٹ تھوڑے آڈر کے لیے چلا کر توانائی اور دیگر اخراجات پر سرمایہ ضائع نہیں کرسکتے۔

یہی حال دیگر کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیوں کا ہے جنہوں نے پلانٹ بند کردیے ہیں اور لاکھوں ورکرز بے روزگار ہوگئے ہیں۔ یہ تو صرف خوراک سے وابستہ شعبے کا حال ہے مگر مجموعی طور پر سپر پاور کی معیشت کو جو جھٹکے لگ رہے ہیں وہ بتارہے ہیں کہ سپر پاور کا زمانہ جارہا ہے۔ مضبوط اور امیر ترین معیشت ہونے کا دور ختم ہوا چاہتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں