عمران خان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے

جھوٹے میڈیا کا علاج، تحریک انصاف کو کیا کرناچاہئے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:

وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کی حکومت مسلسل مخمصوں اور تضادات کے گھیرے میں ہے۔ ان کے نزدیک 2018 کے عام انتخابات کے نتائج آنے تک پاکستانی میڈیا سچا تھا، بالکل صاف وشفاف تھا۔ خود عمران خان ہر روز، ہر ٹیلی ویژن کے ہر پروگرام میں بیٹھنے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ اخبار نویس اور ٹی وی چینلز کی گاڑیاں ان کے اردگرد ہی رہتی تھیں، نجانے انھیں کب میڈیا سے گفتگو کرنی پڑجائے۔ اس وقت تک سب ٹھیک تھا۔

میرا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو واضح طور پر یہ  کہہ دیناچاہئے کہ ان کے برسراقتدار آنے تک میڈیا سَچا اور سُچا تھا لیکن اس کے بعد یہ جھوٹا ہوگیا۔ کہنے میں کیا حرج ہے!

اب عمران خان وزیراعظم بن گئے اور کہہ رہے ہیں کہ میڈیا جھوٹا، میڈیا نیگٹیو، میڈیا میں مافیا کا راج، میڈیا کرپشن چھپانے، کرپٹوں کا ساتھ نبھانے میں لگا ہوا ہے۔ اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ الیکٹرونک، پرنٹ میڈیا کا دور گزر گیا، کرنٹ افیئرز کے پروگرام بے کار، بے نتیجہ، لہٰذا اخبار پڑھیں نہ ٹی وی دیکھیں۔ وہ خود بھی یہ باتیں کہتے ہیں اور مولانا طارق جمیل کی زبان سے بھی ایسی ہی باتیں کہلادیں۔  چلیے! ہم ایمان لائے کہ عمران خان اور مولانا طارق جمیل درست کہتے ہیں۔ صدق دل سے ایمان لائے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان اب بھی اسی الیکٹرانک میڈیا اور انہی اخبارات کے ذریعے اپنے بیانات نشر اور شائع کراتے ہیں، اپنی کوریج کراتے ہیں۔

یہ ایک بات ہے کہ میڈیا کسی فرد کی غلط کاری کی نشاندہی کرتاہے تو وزیراعظم عمران خان میڈیا کو جھوٹا قرار دیتے ہیں لیکن پھر کچھ عرصہ بعد وہ غلط کار شخص  اپنی غلط کاری کے ساتھ نمایاں ہوجاتاہے اور پھرعمران خان اس فرد کو برطرف کردیتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں عمران خان کو میڈیا پر یہ غصہ ہے کہ وہ ان کی حکومت کی غلط کاریاں کیوں‌سامنے لاتا ہے!!! یہ ہمارا مخمصہ ہے، براہ کرم تحریک انصاف والے ہمارا مخمصہ دور کرنے میں‌مدد کریں۔ ہمارا یہ سوال بھی ہے کہ تحریک انصاف کے ہر برطرف شخص کے خلاف کوئی انکوائری کیوں نہیں ہوتی؟ ان  میں سے بعضوں کو دوسری وزارتیں دیدی جاتی ہیں اور بعض پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنادیے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں؟

چلیے ! ہم مزید اپنے مخمصموں کی بات نہیں کرتے، ذرا ارشاد بھٹی ہی کو پڑھ لیجئے، وہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں۔ ویسے یہ جملہ خواہ مخواہ لکھا گیا کیونکہ ہمیں” کسی” کا پردہ منظور ہے، اس لئے نہیں لکھنا چاہتے کہ وہ کس کا "بندہ” ہے؟  بہرحال وہ فردوس عاشق اعوان کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"وہ فارغ ہو چکیں، لیکن ان کے فارغ ہونے پرکیکڑا ذہنیتوں، بچھو خصلتوں، مکھی نما لوگ جو الزامات لگا رہے، وہ افسوسناک، مبینہ طور پر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی پارٹنر ہونا، اشتہاری ایجنسیوں کے فرنٹ مینوں کے ذریعے کمیشن الزام ، زیادہ سرکاری گاڑیوں، نوکروں کا استعمال الزام، مبینہ طور پر اپنی وزارت کے اعلیٰ افسر سے کہنا، میرے کچن کا خرچہ اٹھائیں”۔

"ان سب الزامات کو اکٹھا کرکے جمع کریں تو ان کی مالیت بنے 5چھ کروڑ، اب اگر پانچ چھ کروڑ کے الزامات پر ڈاکٹر صاحبہ کو نکالا گیا تو پھر رزاق داؤد، ندیم بابر، خسرو بختیار، ابھی تک عہدوں پر کیوں، ان پر تو مبینہ طور پر اربوں کے الزامات، کہاں پانچ چھ کروڑ کی ڈری، سہمی ہیرا پھیریاں، کہاں دن دہاڑے اربوں کے ڈاکے”۔

اسی طرح تحریک انصاف کے دیگر مداح صحافی اور تجزیہ نگار بھی کچھ ایسی ہی دلیلیں گھڑ کے لاتے ہیں، پتہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں یا سچ،۔ خیر اس باب میں وہ جانیں اور تحریک انصاف والے جانیں۔

ہم صرف عمران خان اور تحریک انصاف والوں کی خدمت میں ایک مخلصانہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ

وہ پی ٹی وی کے علاوہ تمام ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات پر پابندی عائد کردیں کہ وہ وزیراعظم سمیت تحریک انصاف کی حکومت کے تمام عہدے داران کی خبریں‌نشریا شائع نہ کریں۔

اسی طرح تحریک انصاف کے کسی بھی سطح کے صدر اور کارکن کی خبریں جھوٹے میڈیا سے نشر یا شائع نہ کرائی جائیں۔ اس حوالے سے مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ جھوٹے میڈیا کی گندی زبانوں پرایک پاک، صاف، شفاف حکومت اور پارٹی کا نام بھی نہیں آناچاہئے۔

ہماری گزارش ہے کہ حکومت کا کوئی فرد پی ٹی وی کے علاوہ کسی بھی ٹیلی ویژن چینل  کے پروگرام میں شرکت نہ کرے۔ تحریک انصاف کے تمام کارکنان پی ٹی وی کے علاوہ کوئی بھی ٹیلی ویژن چینل نہ دیکھیں نہ ہی کوئی اخبار پڑھیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف جھوٹے میڈیا کو دن میں‌تارے نظر آجائیں گے بلکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکن ڈپریشن سے بھی محفوظ رہیں گے۔

اور ہاں! ایک اور بات
تحریک انصاف والے اس دن کی تیاری بھی کرلیں جس دن وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے،سوچ لیں کہ اس روز میڈیا کو جھوٹا کہناہے یا میڈیا کو اپنا ہتھیار بناناہے۔ میراخیال ہے کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جھوٹے میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کردیناچاہئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں