ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

آخری لمحات میں وہ کیا سوچتے رہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید:

موت میرے لیے ہمیشہ سے دل چسپی کا موضوع ہے۔ گلیمر ، رنگ و نور ، مال و دولت ، لذت پرستی اور جسم کی دنیا سے وابستہ بڑے ناموں کے دنیا سے جانے پر میرا تجسس مجھے یہ جاننے پر مجبور کرتا ہے کہ اپنے آخری لمحات میں وہ کیا سوچتے رہے؟

کیا انہیں یہ احساس ہوا کہ جن چیزوں کے لیے وہ ساری عمر بھاگتے رہے، انہیں جمع کرتے رہے وہ کتنی ناپائدار تھیں

جو انسان روح پر، بلند انسانی مقاصد پر ، اللہ پر ، زندگی بعد موت پر یقین نہیں رکھتا اور جسم کو سب سے بڑی حقیقت سمجھتا ہے ، اور اسی جسم کے مطالبات کو پورا کرنے میں اپنی توانائیاں کھپاتا ہے اور پھر کامیابیاں بھی حاصل کرتا جاتا ہے وہ بہت سارے دوسرے انسانوں کے لیے بھی مثالی نمونہ اور رشک و حسرت کا مرکز بن جاتا ہے۔

تو کیا ان کے جانے پر ان کے چاہنے والوں کو احساس ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو وہ ایک حسرت سمجھتے ہیں وہ اس قدر بے وفا ہیں کہ جو انہیں پالے وہ بھی کچھ عرصے بعد محروم ہوجاتا ہے۔

قارون اپنی دولت کی نمائش کے لیے نکلا تو ایک دنیا حسرت میں مبتلا ہوگئی۔ اس میں ایک بڑی تعداد ان کی بھی تھی جو خدا پر، دنیا کے آخرت کی کھیتی ہونے پر، آخرت کی پائداری پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے۔
مگر پھر انہوں نے اسے زمین میں دھنستے دیکھا۔

میں نے باکسنگ ڈے پر Kate Spade کی دکانوں کے باہر صبح سات بجے سے لوگوں کو قطاریں لگائے دیکھا ہے۔ ستر فیصد سیل میں ہزار ڈالر کا بیگ دو سو ڈالر میں خرید کر خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھنے والوں کی لمبی قطاریں۔

اور کیٹ اسپیڈ مین ہیٹن میں اپنے اپارٹمنٹ میں خود کشی کرلیتی ہے جبکہ اس کا پارٹنر اور نو سالہ بیٹی اس وقت اسی اپارٹمنٹ کے کسی اور کمرے میں موجود ہوتے ہیں۔

اس کی موت کے بعد بھی میں نے اس کی شاندار دکانوں پر لوگوں کو سیل سے صرف ایک بیگ لینے کی چاہ میں اسی طرح طویل قطاروں میں کھڑا دیکھا ہے۔

میں نے اپنی بیٹی سے کہا تھا جس کے ایک بیگ کو خریدنے والی خود کو خوش قسمت سمجھ کر ہواؤں میں اڑتی ہے، اس نے ایسے ہزاروں بیگوں کی مالکہ ہونے کے باجود خود کشی کیوں کی؟

رابن ولیمز ایک بہت خاص اداکار تھا۔ وہ کامیڈین تھا مگر اپنی اداکاری اور ایکسپریشنز سے امید اور محبت کا پیغام دیتا تھا۔ لاکھوں نے کہا ہوگا کہ آپ کی فلاں فلم اور فلاں مکالمے سے ہم نے انسپریشن لی۔ میں سوچتی رہی ہوں کہ آخرت اور ابدی زندگی کے متبادل نظریہ رکھنے والے کس سچائی تک پہنچتے ہیں اور رابن ولیمز کے بارے میں میرا سمجھنا تھا وہ بڑا مقصد رکھتا ہے اور بڑا کام کرتا ہے۔ تو شاید اسے داخلی سکون و طمانیت مل گیا ہوگا۔ مگر اس کی خود کشی نے مجھ جیسی مذہبی عورت کو بھی ہلا دیا۔ گویا کہ جو کچھ بھی رنگ و نور اور انسپریشن نظر آتا تھا وہ سب ظاہری غلاف تھا؟اندروں تو خالی، تاریک اور بے سکون ہی رہا؟

⁩ حال میں ایک اور مشہور اداکار کو کینسر ہوگیا۔ آخری ایام میں لکھے گئے اس کے الفاظ میں نے اسی تجسس کے ہاتھوں شئیر کیے تھے۔ وہ کیسی بے بسی سے لکھتا ہے کہ وہ تو ہزاروں خواہشوں اور اہداف اور کئی جھمیلوں کے ہجوم میں زندگی کی بس میں پھنسا کھڑا تھا کہ کنڈکٹر نے پیچھے سے کندھا ہلا کر کہا کہ بھائی اتر جاؤ یہی تمہارا اسٹاپ ہے۔ وہ کیسی بے بسی سے اس سے جھگڑتا ہے مگر کنڈکٹر نہیں سنتا ۔
اور کرب کے ان لمحات میں جسم کی دنیا کے اس باسی نے کیا ”سچائی“ کشید کی؟
”زندگی بے یقینی کا دوسرا نام ہے“!
میں جھرجھری لے کر رہ گئی ہوں۔

لوگوں کو اپنی زندگی کی بے مقصدیت اور خالی پن کا احساس نہیں ہوتا؟ اس وقت بھی جب ان کی حاصل کی ہوئی ساری دولت، شہرت، لذت پرستی ان کے لیے بے وقعت ہوجاتی ہے ۔

میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں میں اپنے بچپن کے مشہور ستاروں کو جھریوں بھرے چہروں اور بدصورت کردینے والے بڑھاپے کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ جن کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ ٹوٹے پڑتے تھے، جن کے لیے کچھ لوگوں نے اپنی کلائیاں کاٹی ہوں گی وہ اب دوسرے اور تیسرے درجے کے ڈراموں میں بور سے ماں باپ تایا اور ساس کے کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

شہرت جن کی غذا تھی وہ اس پر بھی خوش ہوتے ہیں کہ چمکتے شور مچاتے اسٹیجوں پر ان کے بوسیدہ وجود کو کچھ دیر کو ذرا توجہ دے کر پھر کم عمر، تروتازہ جسموں اور کھنکتی ہوئی آوازوں کی ایک نئی کھیپ کی پرستش شروع کردی جائے۔

ان نئے تروتازہ جسموں اور ان کی پرستش کو دیکھ کر انہیں ماضی سے کئی فلیش بیکس تو ہوتے ہوں گے۔
اور پھر بھی ہماری اکثریت انہی پیمانوں پر خوشی کو ناپتی ہے اور انہی انسانوں کو کامیاب سمجھتی ہے جو ان عارضی سہاروں پیچھے بھاگتے ہیں اور انہیں پالیتے ہیں۔ سہارے جو تار عنکبوت ہیں!

زندگی کی سچائی بے یقینی نہیں ہے۔
زندگی کی سچائی یہ ہے کہ یہ ناپائیدار، بے وفا اور جھوٹی ہے۔
جسم کی دنیا کی پرستش اور روح کے مطالبات کا انکار کرنے والے اندر سے خالی، تاریک اور ہراساں رہتے ہیں۔

خود کشی کی کوشش کرنے والے سے جب پوچھا ہے تم کیسا محسوس کرتے ہو؟ تو اکثر جواب ملتا ہے:
"Empty” "I don’t know” "flat” "meaningless”
There’s no point!

میں نے جانا ہے کہ ہر لذت کی انتہا ہے اور زیادہ استعمال کرنے پر چیزیں ذائقہ دار نہیں رہتیں۔
لذت پرستی کی انتہا خلا ہے، بے مقصدیت کا خلا۔

زندگی کی اصل حقیقت بے یقینی نہیں ہے، زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی لذتیں ناپائیدار، بے وفا اور دھوکہ پر مبنی ہیں۔

اور جو ان چیزوں کے حصول کو مقصد بنائے گا، اس کے اختتام پر بے بسی کی انتہا میں خود سے بچنے کو وہ خود کو ایک اور دھوکہ دیتا ہے۔
موت اختتام زندگی ہے۔ فنا کا دروازہ ہے۔
حالانکہ
موت فنا کا دروازہ نہیں، دوسری زندگی کا دروازہ ہے اور دنیا دوسرے جہان کی کھیتی ہے جہاں وہ سکے کام نہیں آئیں جن کے انبار جسم کی دنیا کے پرستاروں کے پاس موجود ہوتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں