بنک کے باہر صارفین کی طویل قطاریں

عمران خان حکومت لاک ڈائون کیوں ختم کرے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:

لاک ڈائون کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا موقف شروع دن سے درست رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت کا عمل بالکل مختلف ہے۔ عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈائون کے سبب غربت بڑھے گی تاہم وفاقی دارالحکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا، جہاں انھیں مکمل حکمرانی حاصل ہے، میں وہ لاک ڈائون نافذ ہے جس کی مخالفت وزیراعظم کررہے ہیں۔ قول اور فعل کے اس تضاد کو کیا عنوان دیا جائے، خود تحریک انصاف والے سنجیدگی سے بتا دیں، مہربانی ہوگی !

اب وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ
”حکمران اشرافیہ نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کیا کہ ملک میں لاک ڈائون کرنا ہے‘ لاک ڈائون کا فیصلہ امیروں نے کیا‘ غریب اور مزدور آدمی کا سوچا ہی نہیں۔“

حیرت ہورہی ہے کہ وہ کس کو ”حکمران اشرافیہ “ کہہ رہے ہیں؟ کیا انھیں پھر بتانا پڑے گا کہ آپ اپوزیشن میں نہیں ہیں جناب! آپ کنٹینر پر نہیں کھڑے بلکہ وزیراعظم ہائوس میں ہیں۔ آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔

بتائیں تو سہی، کس کو حکمران اشرافیہ کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ امیر آپ کے اردگرد ہیں جنھوں نے وفاق، پنجاب اور خیبپختونخوا میں لاک ڈائون کا فیصلہ کیا؟ ہم سندھ کی بات نہیں کرتے کیونکہ وہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکمرانی ہے، بلوچستان کی بات نہیں کررہے کہ وہاں تحریک انصاف نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ بعض اوقات انسان اتحادیوں کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ عمران خان کے بلوچستان میں اتحادی امیر کبیر ہوں۔

پاکستان کے 22 کروڑ لوگوں میں سے 15 کروڑ لوگوں کی براہ راست حکمران تحریک انصاف ہے۔ ہم تو پوچھتے ہیں کہ یہ پندرہ کروڑ لوگ کس کی وجہ سے لاک ڈائون کا شکار ہیں؟ اگر آپ کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پھر وفاق، پنجاب اور خیبرپختون خوا میں لاک ڈائون کے ذمہ دار آپ ہی کی جماعت کے دولت مند لوگ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا وہ اس قدر طاقتور ہیں کہ ملک کا وزیراعظم بھی ان کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہے؟

میں‌کہا کرتا ہوں کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف مخمصوں اور تضادات کی شکار ہے، اس پر تحریک انصاف کی ٹائیگرفورس ناراض ہوتی ہے۔ تو پھر وزیراعظم عمران خان کی اس دو عملی کو کیا نام دیا جائے۔

اگر عمران خان کی یہی پالیسی ہے کہ بیانات کی حد تک لاک ڈائون کی مخالفت کرو لیکن عملاً لوگوں کو ہلنے جلنے کی اجازت نہ دو، تو اسے افسوس ناک طرزعمل قرار دیا جائے گا۔

کیا وزیراعظم عمران خان جانتے ہیں کہ لاک ڈائون سے پہلے پاکستان میں 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے ، ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ تحریک انصاف کی حکمرانی میں خط غربت کے نیچے دب گئے۔ یہ بات تحریک انصاف کے جاری کردہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لکھی جارہی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ ہے۔ موجودہ لاک ڈائون نے انھیں بھی خط غربت کے قریب یا اس سے نیچے پھینک دیا ہے۔ یوں خط غربت کے نیچے یا آس پاس زندگی بسر کرنے والے ملک کی آبادی کا 65 سے 70 فیصد ہوچکے ہیں۔ بعض لوگ اس نئے طبقے کی شرح اس سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔

یہ کیسی احمقانہ حرکت ہے کہ آپ نے ایک ایسی وبا جس کا شکار ہوکر صرف دو فیصد تشویشناک حالت میں مبتلا ہوتے ہیں، کی خاطر ملک کی 70 فیصد آبادی کو غربت کے ذریعے ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا!!کیا کسی کو سمجھ نہیں ہے کہ غربت شدید ہوئی تو سٹریٹ کرائمز کا ایسا طوفان بپا ہوگا کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ لوگ اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے کچھ بھی کرتے ہیں۔

عالمی اداروں کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر 10 لاکھ لوگوں میں سے 86 لوگ کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں اور ہر 10 لاکھ لوگوں میں سے دو افراد جاں بحق ہوئے ہیں لیکن بڑے بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ بھی کورونا وائرس سے ضرورت سے زیادہ خوف کا شکار ہیں۔ یادرہے کہ خوف اور احتیاط میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاط ہی نہیں حد درجہ احتیاط کرنی چاہئے لیکن خوف زدہ نہیں‌ہونا چاہیے، ضرورت سے زیادہ خوفزدہ تو بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ خوف قوت مدافعت کو کمزور کرتا ہے،اور تمام ایلوپیتھک، ہومیتھک ڈاکٹرز اور اطبا کا اتفاق ہے کہ قوت مدافعت ہی کورونا وائرس سے بچاتی ہے۔

جہاں تک حفاظتی تدابیر کا معاملہ ہے، حکومت کو ایس او پیز تیار کرکے اس کی سختی سے پابندی کروانی چاہئے لیکن کاروبار کھولنے چاہئیں۔ ہر کاروبار والے کو انتباہ کرنا چاہیے کہ ایس او پیز کی پابندی نہ کی تو آپ کا کاروبار بند کردیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے ایسے کاروباری مراکز بھی بند کروائے جہاں رش نہیں ہوتا۔

حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھولنی چاہیے لیکن ضابطہ نافذ کرنا چاہئے کہ ٹرانسپورٹ میں کم مسافروں کو سوار کیا جائے گا بصورت دیگر گاڑی کو بند کردیا جائے گا۔

ہماری حکومتوں نے گروسری سٹورز سمیت بعض کاروبار کھولنے کی اجازت دی لیکن ان کا وقت محدود کردیا۔ اب یہ ایک طفل مکتب بھی سمجھتا ہے کہ محدود وقت میں کسٹمرز کا رش ہوگا لیکن اگر اسے لامحدود کردیا جائے گا تو رش تقسیم ہوجائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ضابطہ نافذ کرکے کاروبار 24 گھنٹے کھولنے کا حکم دینا چاہئے، اس کے نتیجے میں رش مزید تقسیم ہوگا۔

ہمارے ہاں بنکوں نے بھی یہی حرکت کی ہے، انھوں نے بہت سی برانچز بند کرکے چند ایک برانچز کو کھولا ہے، ظاہر ہے کہ وہاں رش ہوتا ہے اور طویل ترین قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کیا ایسی حکمت عملی تیار کرنے والوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ لوگوں کو غیرضروری طور پر باہر نکلنے سے روکنا ہی چاہئے، جہاں ایک فرد باہر نکلے اور کام مکمل کرکے واپس گھر جائے، ضروری نہیں خریداری کے لئے پورا گھرانہ ہی باہر نکلے۔ اس کے لئے حکومت کو موٹرسائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی برقرار رکھنی چاہئے،تاکہ لوگ کم سے کم گھر سے باہر نکلیں۔ ہاں! ایک مرد اور خاتون کو استثنیٰ ہونا چاہئے۔ اسی طرح ان لوگوں کو جنھیں ہمیشہ سے ڈبل سواری کی پابندی سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔

حکومت پارک اور دیگر تفریحی مقامات بند رکھے تعلیمی ادارے بھی بند رکھے لیکن تاہم تمام بنیادی ضروریات سے متعلقہ شعبوں کو کھلنا چاہیے۔

مکرر عرض ہے کہ ایک ایسی وبا جس کے شکار 98 فیصد معمول کی کیفیت میں رہتے ہیں، کی خاطر لوگوں کو غربت کا شکار کرکے ہلاک نہ کریں۔ کیونکہ ہماری حکومتوں کے پاس اس قدر استطاعت نہیں ہے کہ وہ ہر گھرانے کو کم از کم ضروریات زندگی بھی پوری کرنے کے لیے رقم دے۔ عمران خان حکومت نے 12 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے، کیا 12 ہزار روپے میں ایک گھرانے کی ماہانہ بنیادی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں؟؟ ذرا ! ہر پاکستانی فرد خود ہی جائزہ لے کہ اس کے اردگرد موجود کتنے گھرانوں کو 12 ہزار روپے ملے ہیں!!
دراصل حکومت 12 ہزار روپے بھی دینے پر قادر نہیں ہوسکتی۔ شاید اسی لئے ’احساس پروگرام‘ سے متعلقہ اعدادوشمار چھپائے جارہے ہیں۔ صرف قوم کو طفل تسلی دی جارہی ہے کہ ہم 12 ہزار روپے دے رہے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں