مدثر محمود سالار:
پرائمری کے امتحانات کے بعد مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو چند ماہ میں کثیر کتب پڑھ لیں۔ پھر یہ عادت شوق اور نشہ بن گئی۔ جو ہاتھ لگا پڑھ لیا، ابو جی کے پاس ذاتی ہزاروں کتب تھیں اور بس سمجھیں کہ یہی ورثہ ملا ہمیں۔ جب عید پہ گائوں جانا تو کچھ رشتہ داروں کا بار بار یہ کہنا کہ یہ بچے تو بس رسالوں اور کتابوں میں گھسے رہتے ہیں ، تو یہ جملے چبھتے نہیں تھے بلکہ اچھا لگتا تھا۔
نانا جی مرحوم کے پاس غالباً ستّر کی دہائی سے ہر ماہ کا ’اردو ڈائجسٹ‘ موجود تھا اور بہت احتیاط سے وہ رسالے مجلد سنبھالے ہوئے تھے۔ میٹرک کرنے تک اتنی کتب پڑھ لی تھیں کہ نام یاد رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔
پنجم اور ششم جماعت کے دوران ایک کتاب پڑھی جو پڑھنی تو قصے کہانیاں سمجھ کر تھی مگر اسی کتاب نے میری زندگی بدل دی۔ زندگی ایک یا دو دن، ماہ یا سال میں نہیں بدلتی بلکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
وہ کتاب تھی عبدالغنی فاروق صاحب کی ”مکافاتِ عمل“۔ اس کتاب نے مجھے جو سکھایا وہ دیگر کئی ہزار کتب سے بھی نہیں سیکھا ہوگا۔ یہ کتاب پڑھتے وقت عمر چودہ پندرہ سال تھی اور ذہن بچگانہ شرارتی تھا مگر الحمد للہ اس کتاب کو پڑھ کر آنے والی زندگی کو دوسروں سے ہٹ کر دیکھنے کی عادت بن گئی۔ اس کتاب نے مجھے قوتِ مشاہدہ سے نوازا۔ حالاتِ زندگی پر غوروفکر اور گہرے مشاہدے نے کم عمری میں ہی مجھے بابوں کی جگہ لاکھڑا کیا۔
دراصل مکافاتِ عمل نامی اس کتاب میں لوگوں کے سچے واقعات بیان کیے گئے جو مصنف نے اپنی زندگی میں خود دیکھے، کسی نے اچھا کام کیا تو اس کا پھل عمر کے آخری حصے میں بھی پایا تو مصنف یہ دیکھ رہا تھا، نیز کسی نے کچھ برا کیا تو اپنے کیے کا پھل اسی دنیا میں پاکر گیا اور یہی باتیں مصنف نے لکھ دیں کہ کیسے وہ بچپن سے لوگوں کو دیکھتے آئے اور کس نے کیا کھویا کیا پایا۔
یہ کتاب پڑھ کر میں نے بھی آس پاس گہرائی سے مشاہدہ شروع کیا اور پھر تاحال دیکھتا آیا ہوں کہ زندگی کب کہاں روٹھ جاتی ہے اور کب اور کیسے مان بھی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور کتاب انہی پروفیسر عبدالغنی فاروق کی پڑھی ”ہم کیوں مسلمان ہوئے؟“
اس دوسری کتاب میں نومسلم افراد نے اپنی زندگی کی کہانی بتائی ہے کہ کب ان میں سوچ کا دروازہ کھلا اور وہ اسلام کی طرف راغب کیسے ہوئے؟ ان آپ بیتیوں میں سے مجھے میلکم ایکس اور محمد علی باکسر کی آپ بیتی نے بہت متاثر کیا۔
بہرحال پہلا حادثہ میرے ساتھ یہ ہوا کہ وہی چھٹی ساتویں جماعت کے دن تھے ، ابو جی نے انکل سعید کی دکان پہ ماہانہ کھاتہ کھلوایا ہوا تھا ، سودا وہاں سے زیادہ تر میں ہی لاتا تھا اور ابو جی ان کو مہینے بعد پیسے دیا کرتے تھے۔ مجھے عادت پڑ گئی ٹافیاں کھانے کی اور میں ٹافی لیتا اور ابا کے کھاتے میں لکھوا دیتا، ایک دن ٹافی لے کر دکان سے نکلا تو ابوجی نے دیکھ لیا،
انہوں نے پوچھا کہ ٹافی کے لیے پیسے کہاں سے لیے تو میں نے بتادیا کہ کھاتے میں لکھوائے۔ ابو جی نے کہا آو ذرا واک کرتے ہیں، چلتے چلتے کہنے لگے کہ اس طرح کرنا دھوکہ بازی اور چوری ہے۔ اگر یہ ٹافی پسند ہے تو مجھے کیوں نہیں کہا ، میں پورا پیکٹ لے آتا ، گھر میں سب کھاتے مگر یوں چھپ کر ایسے ادھار لکھوانا میرے علم کے بغیر تو اچھی بات نہیں۔
میں نے کہا: ابو جی! آج پہلی بار ہی لی،
بولے: ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چور لایا گیا تو چور نے کہا حضرت! معاف کردیں، پہلی بار چوری کی ہے تو آپ نے فرمایا یہ تو اللہ کا قانون نہیں کہ پہلی بار غلطی پر پکڑ لے، تمہاری چوری پہلی بار نہیں پکڑی گئی بلکہ اللہ تمہیں ملہت دیتا رہا مگر تم نہیں سدھرے تو پکڑے گئے۔
یہ واقعہ سن کر میں چپ رہا مگر اس دن کے بعد سے آج بیس سال ہونے کو آئے کبھی چوری کا خیال نہیں آیا۔ اس واقعہ سے پہلے ہی وہ ”مکافاتِ عمل“ کتاب پڑھ رکھی تھی تو اس میں لکھے ہوئے واقعات سمجھ آنے لگے اور پھر ایک پیسہ کی بھی چوری نہیں کی۔
کئی بار مختلف اداروں اور کمپنیوں میں اکائونٹس کا کام کیا، اور الحمد للہ سینئیرز نے باقاعدہ توجہ دلائی کہ مدثر صاحب! آپ کا حساب کتاب ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے اور پیسے کی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اسی عادت نے مجھے مجبور بھی کیا کہ اگر میرے کولیگز پیسے میں گڑ بڑ کررہے ہیں تو میں ادارے کو بتا دیتا ہوں کہ میرا گزرا ممکن نہیں کیونکہ میں چوری نہیں کررہا مگر دوسروں کی وجہ سے مجھ پر اگر حرف آئے گا تو یہ بھی میرے لیے باعثِ شرمندگی ہے اس لیے میں جاب چھوڑ رہا ہوں۔
بار بار جاب تبدیل کرنے کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے اور میں نے یہ طعنہ مسلسل سنا ہے کہ تم ایک جگہ ٹک کر کام نہیں کرتے مگر میں مجبور ہوں کہ میری دیانت پر حرف نہ آئے۔
اسی طرح میں نے دیکھا کہ ہم جب یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہیں تو ہمارے اونچے اونچے خواب ہمیں دولت کمانے کے چکر میں اتنا اندھا کردیتے ہیں کہ ہم پیسے کو ہی مقصدِ زندگی سمجھ لیتے ہیں۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ مجھے گہرا مشاہدہ کرنے کی عادت ہے تو ایک بار راولپنڈی میں ویسٹریج کے ساتھ جو ماربل فیکڑیاں ہیں وہاں سے گزرتے ہوئے ایک ماربل کے کتبہ پر نظر پڑی ، وہ قبر کا کتبہ تھا جو کسی نے آرڈر دیا ہوگا اور تیار کرکے اب باہر پڑا ہوا تھا، تو اس کتبہ پہ نام کے ساتھ سن وفات اور عہدہ لکھا ہوا تھا۔
عہدہ تھا چئیرمین سی ڈی اے اسلام آباد۔ میں وہاں سے گزر آیا مگر وہ کتبہ میرے ذہن پہ نقش ہوگیا۔ میں نے یہ راز پالیا کہ جتنا بھی بڑا عہدہ ہو مگر قبر میں کچھ ساتھ نہیں جائے گا، جس کے ایک دستخط اور ایک کال پہ اربوں کھربوں کے پراجیکٹ منظور ہوتے تھے وہ قبر میں بےیار و مددگار پڑا ہوا ہے۔
میں اپنے دوست احباب اور اقربا کے مالی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کرکے سبق سیکھتا ہوں اور خواہشات پر ضبط کرنا انہی مشاہدات سے سیکھا۔ ایک جاننے والے ہیں ان کی زیادہ عمر ہالی ووڈ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہی۔ موصوف نے پیسہ اتنا کمایا کہ گنتے گنتے ہم تھک جائیں ، اب وہ مشہور جملہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ بیٹھ کر کھائو تو قارون کے خزانے بھی ختم ہوجاتے ہیں، اور ہاتھی مر کر بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے،
میں ان جملوں کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع یہی کررہا تھا کہ ان صاحب نے اب گھر بیٹھ کر کھایا تو بھی بقیہ زندگی عیش و آرام سے گزرے گی مگر اللہ کی شان کہ میرے سامنے ہی چند سال میں ان کے حالات ایسے خراب ہوئے کہ روٹی کے لالے پڑ گئے۔
میں ان کو دیکھ کر کانپ گیا کہ بس یہی وہ پیسہ دولت تھا جس کے بل پہ ہم اپنی زندگی اچھی گزارنے کے دعوے کرتے ہیں۔ میں نے یہی سیکھا کہ انسان پیسہ دولت جتنی مرضی کما لے مگر اس کو اس پیسہ پہ اختیار نہیں ہے اور کبھی بھی زمین و آسمان منہ پھیر سکتے ہیں۔ بس اشد ضروریاتِ زندگی اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے وسائل تلاش کرنا ہی مناسب ہے ورنہ عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لیے خواہشات بڑھاتے جائیں تو ضروریات پوری ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی کہ ایک مرتبہ ایک صاحب کو کسی لین دین کے جھگڑے میں گولی لگی اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ اب میں اس کھوج میں تھا کہ اس شخص کے ساتھ ایسا ظلم کیوں ہوا؟ کچھ حال احوال کے بعد معلوم ہوا کہ اس حادثہ سے پچیس سال پہلے موصوف نے اندھیری رات میں ایک گاڑی چھینتے ہوئے گاڑی کے مالک کو قتل کردیا تھا مگر ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کوئی کاروائی نہیں ہوسکی تھی۔ میں حیران تھا اللہ کے انصاف پر۔
میں نے ذاتی طور پر چند سال پہلے ایک حادثے سے گزر کر اپنے آپ کو بہت تبدیل پایا۔ ایک بار میرے گھر پر حملہ ہوا اور فائرنگ سے اتنی روشنی ہوگئی جیسے دن کا سماں ہو، میں نے موبائل اٹھایا تو موبائل کا کال پیکج اور انٹرنیٹ پیکج ختم ہوچکا تھا اور عین فائرنگ سے گھنٹہ پہلے رات کے بارہ بجے موبائل پیکج ختم ہوگئے تھے، میں نے لیپ ٹاپ آن کیا انٹرنیٹ ڈیوایس لگائی تو اس کا پیکج بھی ختم تھا، میں حیران رہ گیا کہ مصیبت کے وقت جن چیزوں پر ہم انحصار کرتے ہیں وہی آج میرے کام نہیں آئیں۔
دنیا سے رابطہ ختم تھا اور میرے گارڈز جوابی فائرنگ کررہے تھے مگر میں سوچ رہا تھا کہ بس دنیا کی حقیقت یہی ہے جو آج میرے سامنے ہے۔ اس دن کے بعد موت کے حوالے سے میرا اندازِ فکر بدل گیا، میں اس کے بعد کئی ٹریفک حادثات سے گزرا مگر اب وہ موت کا خوف یا زندگی چھن جانے کا خوف میرے اندر ویسا نہیں رہا جیسے عام انسانوں میں ہوتا ہے۔
(نوٹ: آپ بھی اپنی زندگی کا کوئی واقعہ جس سے آپ میں مثبت یا منفی کوئی بھی تبدیلی آئی ہو ، وہ لکھ کر ہمیں بھیجیں ہم بادبان ویب سائٹ پر شائع کریں گے۔)