شیخ جواد حسین

برطانیہ کا تعلیمی نظام، پاکستان کیا کچھ سیکھ سکتا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شیخ جواد حسین:

تعلیم اور تعلیمی نظام دونوں ہمیشہ سے ہی میرے محبوب ترین موضوعِ سخن رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ میرا بحثیتِ استاد ایک طویل ترین سفر ہے جو مجھے آج بھی لندن کی ایک اہم ترین یو نیورسٹی سے بحثیتِ استاد منسلک کیے ہوئے ہے۔

جب کبھی تعلیمی ا نحطاط یا پھر اس کی بہتری کی بات ہوتی ہے تو میرے دل میں عجیب سی بے چینی اور قلم میں ُجنبش ہو نے لگتی ہے اور ہاتھ خود بہ خود لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دلِ مضطرب خود بہ خود تجربات کی زنبیل سے کچھ نہ کچھ نکال کر قوم کی خدمت میں پیش کرنے کو مچل اُٹھتا ہے۔

گزشتہ دنوں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے مسائل کی ایک لمبی چوڑی فہرست میری نظر سے گزری کہ جس میں نجی تعلیمی اداروں کے حوالےسے بڑی درد مندی سے حکومت کی نظر ان مسائل اور مشکلات کی طرف مبذول کروائی گی تھی ۔

اس فہرست میں بہت سے مسائل زیر بحث تھے مگر ان میں سے چند نکات انتہائی اہم ہیں کہ جن سے پاکستانی قوم کا مستقبل جڑا ہے۔ میری رائے میں حکومت کا ان مسائل کو جاننا، سمجھنا اور ان مسائل کو ٹھنڈے دل سے ُسننا اور انھیں حل کرنا جدید دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ان نکات میں سب سے پہلی بات جس کا ذکر ضروری ہے، وہ کچھ یوں تھی کہ حکومت نجی تعلیمی اداروں یعنی نجی سکولوں، نجی کالجوں اور بالخصوص نجی یو نیورسٹیوں کو تعلیمی پالیسی بنانے جیسے اہم مر حلے میں سرے سے ہی شریک نہیں کرتی اور نہ ہی انھیں کسی بھی مشاورت میں شریک کیا جاتا ہے، میرے نزدیک یہ انتہاء درجے کی لا پرواہی اور حما قت ہے۔

اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن کا ذکر میں آنے والی سطور میں ضرور کروں گا۔ مگر اس سے پہلے اتنا جان لیجئے کہ پا کستان کے علاوہ دنیا بھر میں حکومت کی طرف سے نجی تعلیمی اداروں کو مشاورت اور تعلیمی پالیسی بنانے جیسے اہم معا ملات میں ہرمرحلہ پرشامل کیا جاتا ہے جس کا مقصد نجی تعلیمی اداروں کے اسا تذہ اور تعلیمی ماہرین کے تجربات اور ان کی گراں قدرعلمی خدمات سے فا ئدہ اُ ٹھانا اور ایک جامع پا لیسی ترتیب دینا ہوتا ہے۔ اور پھر اسی مرتب پالیسی کے ذریعے ملک و ملت کے بہترین مستقبل کے لیے اہداف طے اور حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی آپ جس طرح کی قوم آج سے پانچ سال بعد دیکھنا چاہتے ہیں آپ اسی طرح کا نظام تعلیم نافذ کریں گے اور اسی طرح کے اہداف مقرر کریں گے۔

میں گزشتہ پندرہ سال سے بحثیت اُستاد برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہونے اور اپنے تعلیمی ادارے کے مندوب کی حیثیت سے بے شمار مرتبہ حکومتِ برطا نیہ کی دعوت پران کے پالیسی بنانے والے اداروں کی کئی کا نفرنسز اور مباحثوں میں شریک ہو چکا ہوں جن میں ڈیپارٹمنٹ آف ایجو کیشن ، او ایف ایس، لیڈر شپ فائونڈ یشن، ہائر ایجوکیشن اکیڈمی، ہوم آفس کا ایجوکیشن پرو نٹ ڈیپارٹمنٹ ، یو کیس اور کیو اے اے جیسے ادارے شامل ہیں۔

ان تمام میٹنگز اور کانفرنسز میں ہمیشہ حکومت برطانیہ کی طرف سےسرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی اہم سٹیک ہولڈرز کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پالیسی بنانے سے ایک یا دو سال قبل ہی ان تمام تعلیمی اداروں کے نمائندوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کیا جا تا ہے اورایک یا دو سال کے طویل مدِتی ایجنڈے کے بعد جو پالیسی منظور کرنا مقصود ہو،اس کے کئی مفروضے بنائے جاتے ہیں اور ان کو ان تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی رائے اور راہنمائی کے بعد قا نون کی روشنی میں منظور کیا جاتا ہے۔

یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ آنے والے نئےتعلیمی نظام کے بارے میں مکمل راہنمائی کا کتابچہ بھی جاری کیا جاتا ہے اور پھر ان تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے سٹاف کو ٹرینگ یعنی تر بیت کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ پورے ملک میں نا صرف یکسا ں نظامِ تعلیم قائم کیا جا سکے بلکہ تمام تعلیمی اداروں کو سالانہ رپور ٹنگ اور آڈٹ کے ذریعے قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

او ایف ایس جسے آفس آف سٹوڈ ننٹس کہا جاتا ہے جو ڈ یپار ٹمنٹ آف ایجوکیشن کے لیے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں کے حقوق کے لیے ان تعلیمی اداروں کی خاص مانیٹرنگ کرتا ہے اس کا کام تعلیمی معیار کو قائم رکھنا اور ان کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینا ہوتا ہے اور پھر کیو کیو اے یعنی کوالٹی ایشورس ایجنسی اپنے با لا ئی ادارےاو ایف ایس کے لیے تعلیمی اداروں کا سالانہ آڈٹ کرتی ہے اور اس تعلیمی ادارے کی خوبیوں اور خامیوں کو پبلک کے لیے اپنی ویب سا ئٹ پر شائع کر دیتا ہے۔

ان سب حکومتی اداروں کا کام تعلیمی اداروں اور طالب علموں کی مدد اور راہنمائی کرنا ہے تاکہ وہ اس رپورٹ کے ذریعے تعلیمی اداروں کے معیار سے واقف ہو سکیں اور کالج یا یونیورسٹی کا انتخاب کرنے سے قبل ہی اس کے تعلیمی معیار کو جانچ سکیں۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر کا لجوں اور یونیورسٹیوں کے تمام ایڈ مشن یو کیس کے ادارے کے تحت کیے جاتے ہیں۔ یہ سب ادارے ڈ یپار ٹمنٹ آف ایجوکیشن کو رپورٹ کرتے ہیں اور اس طرح پورے ملک کاتعلیمی نظام ایک مربوط نظام کے تحت کام کر رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ برطا نیہ میں اس قدر پیچیدہ تعلیمی نظام کو انتہائی احسن نظام کے تحت انتہائی اہم طریقے پر چلا یا جا رہا ہےکہ ہر تعلیمی ادارہ نہ صرف حکومت کو جوابدہ ہے بلکہ خود کو پورے تعلیمی نظام کا اہم ترین جزو سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ ملکی طلبہ و طالبات کو بیچلر ز ، ماسٹرز ، اور پی ایچ ڈی کے لیے غیر معینہ مدت تک تعلیمی قرضے بھی دئیے جاتے ہیں اور تب تک ان طالب علموں کو یہ قرضے واپس نہیں کرنے ہوتے جب تک ان کی تنخواہ اکیس ہزار پاونڈزسے تجاوز نہیں کرتی۔ اکیس ہزار سے جتنی بھی زیادہ آمدن ہو،اس کا ماہا نہ صرف نو فیصد بغیر سود کے وصول کیا جا تا ہے۔

اور دوسری طرف اسا تذہ کو بھی ایک سخت تربیتی کورس کے ذریعے تعلیمی معیار سے روشناس کروایا جاتا ہے تاکہ ہر ایک طالب علم کی تعلیمی ضروریات کو درست طور پر سمجھا جا سکےاور ان کے مستقبل کا درست اندازہ کیا جا سکے۔ اور بالآخر برطانوی نوجوانوں کو ملک وقوم کا ایک روشن ستارہ بنایا جا سکے۔ اسی مربوط تعلیمی نظام کی وجہ سے لاکھوں طالب علم پوری دنیا سے تعلیم حاصل کرنے ہرسال برطانیہ آتے ہیں اور یہی اعلیٰ تعلیمی معیار برطانیہ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

آپ کو یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو، قومیں کس طرح کا میاب ہوتی ہیں، اس کے پیچھے کس درجہ کی ان تھک محنت اور کاوش ہوتی ہے۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہوتا ہےکہ جب وہ اپنے ملک میں ایک مربوط معیاری تعلیمی نظام رائج کرنے میں کا میاب ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ کامیابی کا زینہ تعلیم سے شروع ہوتا ہے اور تعلیم پر ہی ختم ہوتا ہے۔

اب ذرا اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی بابت، پاکستان میں حکومت کا ادارہ ایچ ای سی نئے ڈ یزائن کیے گئے کورسز کی منظوری دینے میں بہت سے حیلے بہانوں سے کام لیتا ہے اور انھیں ایک لمبا عر صہ تک نئے پروگرامز کی منظوری کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس ضرورت کو سمجھنے کے لیے صرف یہ مثال ہی کافی ہے کہ اگر میں کہوں کہ مجھے ایک گلاس پانی کی شد ید پیاس ہے اور مجھے آپ پانی دو سال بعد لا کر دیں تو کیا مجھے آپ کے لائے ہوئے پا نی کی ضرورت اس وقت تک رہے گی؟ بس کچھ ایسی ہی کیفیت یہاں ہے۔

جن کورسز کو مکمل کرنے کے بعد متعلقہ شعبے کے ماہر ین کی مارکیٹ میں آج ضرورت ہےاور ان کورسز کہ جن کے ماہرین بننے کے بعد کمپنیاں انھیں نوکری دینا چا ہتی ہیں، اگر ان کورسز کو دو سال بعد حکومت سے منظوری ملےگی اور اس سے پانچ سال بعد ماہرین تیار ہوں گے تو ان کا مستقبل کیا ہو گا۔

اگر نجی تعلیمی ادارے ایک بڑی سرمایہ کاری کےبعد ملک و ملت کی خدمت سرانجام دینا چاہتے ہیں تو اس میں حکومت کو ان کے ساتھ تعاون کرکے ملک و ملت کا مستقبل بچانا ہو گا۔ میں در حقیقت سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں، طالب علموں اور تعلیم کی سرپرستی کا قا ئل ہوں۔ موجودہ حالات میں نجی تعلیمی اداروں کو پاکستان کے لیے کسی حد تک نا گزیر سمجھتا ہوں جس کی چند اہم و جو ہات ہیں،جن کی بابت کالم کی ابتدائی سطور میں اشارہ دیا تھا۔

ان میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ نجی تعلیمی ادارے پاکستان میں روزگار کے بہترین مواقع ، معاشی بہتری میں تعاون، سرمایہ کاری میں اضافہ، پاکستان کے شعبہ جات میں ماہرین کا اضافہ، صنعت اور کاروباروں کو بہترین اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی کھیپ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکاری اداروں کے بعد انہی نجی اداروں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔

میں اس بات پر ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ سرکاری سطح پر مدد اور راہنمائی کے ذریعے سرکاری تعلیمی اداروں کو اوپر اٹھنا اور ان کی حالت میں بہتری لانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ملک میں جہاں طالب علم ، تعلیمی ادارے، اسا تذہ اس سارے تعلیمی نظام کے حصہ دار ہیں وہاں صنعت کار اور کاروباری طبقہ کو بھی اس نظام کا اہم ترین جزو ہونا چاہئیے۔ انھیں برطانیہ کی طرح تعلیمی اداروں کے ایڈوائزی پینل میں ہونا چائیے اور ان کی سفارشات کو نئے کورسز کو مرتب کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے تاکہ جب ان تعلیمی اداروں سے طالب علم فارغ ہو کر نکلیں اور نوکری کے لیے ان اداروں کا رُخ کریں تو صنعت کاروں اور کاروباری طبقہ کو ضرورت کے عین مطابق ملازم حا صل ہو سکیں۔ بالکل یہی کچھ برطانیہ ، امریکا اور یورپ میں ہوتا ہے۔

ہر یو نیورسٹی کے ایڈؤائزی بورڈ میں ملک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نما ئندے موجود ہوتے ہیں جو یونیورسٹیوں کو گرانٹ بھی فراہم کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق کورسز مرتب کروانے کے لیے سفارشات دیتے ہیں کیونکہ انھیں مارکیٹ کی ضرورت اور اصل حقا ئق کا سب سے بہتر علم ہوتا ہے۔ اس گرانٹ سے بہت سے طالب علموں کو مخصوص کورسز کرنے کے لیے سکالرشپ بھی دیا جاتا ہے۔ اور کورس کے مکمل ہوتے ہی وہ آسانی سے نوکری بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ حکمران اپنی روایتی سسُت روی اور لاپرواہی کو کچھ دنوں کی چھٹی عنایت فرما کر اور میدان عمل میں اُتر کر نجی تعلیمی اداروں کے مسائل اور ان اہم معا ملے کا بغور جائزہ لے کر ان کو جلد سے جلد حل کریں گے اور ملک و قوم کی ترقی میں ہر شخص اور ادارے کو حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کریں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں