پاکستان بجٹ2021

پاکستان کے سرکاری ملازمین، آدھے برہمن اور آدھے شودر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ذرا سی بات/ محمد عاصم حفیظ:

بجٹ قریب آتے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی مختلف خبریں سامنے آتی ہیں ۔ دو تین ماہ قبل تو اتنی بڑی بڑی خوشخبریاں خبروں کی زینت بنتی ہیں جیسا کہ 100فیصد اضافہ، میڈیکل، ہاؤس رینٹ سمیت کئی اضافے۔ سرکاری ملازمین بے چارے خوابوں کی دنیا میں چلے جاتے ہیں۔ خیر! بجٹ قریب آتے آتے خواب ٹوٹنے لگتے ہیں اور بجٹ کے اعلان والے دن مکمل ٹوٹ ہی جاتے ہیں۔

دراصل گزشتہ چند سالوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے حساب سے اضافہ نہیں کیا گیا ۔ اس کی بڑی وجہ طاقتور، فیصلہ سازی کرنے والے اور بجٹ و فنانس کے معاملات کو دیکھنے والے محکموں کی خفیہ و اعلانیہ مراعات و الاؤنسز میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ انہیں اب بجٹ اضافے سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ بجٹ میں اضافے کو یوں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جیسے پورا ملکی خزانہ خالی ہو جائے گا جبکہ خود اپنی مراعات و الاؤنسز کو انجوائے کرتے ہیں۔ عوامی تاثر بنایا جاتا ہے اور میڈیا مہم چلائی جاتی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کم سے کم کیا جائے۔

دراصل بجٹ اضافے پر سب کی نظر ہوتی ہے، بڑی خبر بنتی ہے، گزشتہ سال بجٹ اضافہ صرف پانچ فیصد تھا لیکن اس کے فوری بعد پولیس نے بھاری اضافی الاؤنس منظور کرایا اور اسٹیبلشمنٹ کے محکموں نے ایک سو پچاس فیصد۔ جی ہاں! پوری ایک سو پچاس فیصد تنخواہ بڑھا لی ۔

سیکریٹیریٹ میں کام کرنیوالے ملازمین پہلے ہی یوٹیلیٹی الاؤنس اور دیگر مراعات لے کر دگنی سے بھی زائد تنخواہ وصول کر رہے ہیں ۔ یقین مانیں کئی محکموں کے درجہ چہارم کے ملازمین کی تنخواہیں محکمہ تعلیم وغیرہ کے 16 ۔ 17 ویں گریڈ کے آفیسرز سے زائد ہیں۔ عدلیہ، وفاقی محکمے، خودمختار و نیم خودمختار ادارے اپنا الگ پے سٹرکچر رکھتے ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ یہ سب مراعات یافتہ محکمے بجٹ اضافے کی پرواہ ہی نہیں کرتے بلکہ حکومت و سیاسی قائدین کو بجٹ اضافے کے خلاف رائے دیتے ہیں کیونکہ اگر زیادہ اضافہ ہو جائے تو جو مراعات اور الاؤنسز انہوں نے بجٹ کے بعد وصول کرنے ہوتے ہیں ان کے لئے رقم کم رہ جائے گی ۔ یہ افسران ہر سال کسی نہ کسی طریقے سے کوئی ایک آدھ نیا آلاؤنس حاصل کر ہی لیتے ہیں۔

اب جو محکمے فیصلہ سازی میں زیادہ اثر ورسوخ نہیں رکھتے جن کے پاس مالی اختیارات نہیں ان کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا واحد ذریعہ بجٹ اضافہ ہے جو کہ ہر سال ہی پروپیگنڈے، میڈیا ٹرائل اور ملک کی خراب معاشی صورتحال جیسے بہانوں کی نظر ہو جاتا ہے۔

”برہمن محکمے “ تنخواہ کے ساتھ ساتھ سرکاری گھر، گاڑی و پیٹرول، یوٹیلیٹی الاؤنس، تعلیم و میڈیکل سہولیات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ فرض کریں جس سرکاری ملازم کو گھر ملا ہو، بچے محکمے کے بنائے بہترین سکول میں پڑھتے ہوں، گھریلو استعمال کا یوٹیلیٹی الاؤنس ملتا ہو، سرکاری گاڑی و پیٹرول، میڈیکل کے لئے پینل پر پرائیویٹ اور محکمانہ ہسپتال ہوں ۔ کئی الاؤنسز اضافی ملتے ہوں اس کے علاوہ بھی کئی محکمانہ سہولیات ہوں تو انہیں تنخواہ میں بجٹ اضافے سے کتنی دلچسپی ہو گی۔ وہ تو ہر محفل میں پالیسی بناتے ہوئے یہی کہیں گے کہ بجٹ اضافہ کرکے قومی خزانے پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔

بدقسمتی سے ملک میں سکیل وائز تنخواہوں کا نظام بری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ یوں سمجھیں اب تو برہمن اور شودر محکموں کی تفریق ہے۔ طاقتور محکمے اپنے اثرورسوخ سے مراعات و الاؤنسز لیتے ہیں اور جب باقیوں کی باری آتی ہے تو دھڑلے سے قومی خزانے پر بوجھ قرار دے کر ہر سمری مسترد کراتے ہیں ۔ پالیسی سازی اور بجٹ بنانا ہی انہوں نے ہوتا ہے اس لئے ساری جمع تفریق خود کرکے آخر میں ترس کھا کر چھوٹا سا مونگ پھلی کا دانہ دیگر ملازمین کو بھی دے دیتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں یہی ہو رہا ہے ۔ اس ساری صورتحال کو سیاسی قیادت نے دیکھنا ہوتا ہے ۔ گزشتہ چند سالوں میں بیوروکریسی پر سیاسی حکومت کا اثر و رسوخ یکسر ختم ہو چکا ہے اور اب وزراء و حکومت افسروں کی ہدایت پر چلتے ہیں۔ اگر عدالت میں معاملہ جائے تو جوڈیشری تو خود بے ہنسی مراعات منظور کرا چکی ہے کوئی جج کا طرح اس بارے منصفانہ سماعت کر سکتا ہے ۔ بلکہ اس کو ڈسکس ہی کیوں کرے گا۔ فوج کا اپنا نظام ہے اور اسے اس سارے سسٹم سے کوئی غرض نہیں ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ بجٹ دراصل مہنگائی کی شرح سے اہداف ۔ آمدن و اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے ۔ اگر تو حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ ساری اشیاء ضروریہ کی قیمت حتی کہ پیٹرولیم، بجلی، گیس اور دیگر جو سرکاری کنٹرول میں اشیاء ہیں ان کی قیمت پچھلے سال کے برابر ہے تو پھر واقعی تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت نہیں۔

حکومت جو بیچتی ہے یعنی یونیورسٹی فیس۔ کئی دیگر سرکاری فیسیں بجلی گیس اگر ان کی قیمت بڑھاتی ہے تو جناب یہ اضافی پیسے کہاں سے آئیں گے ؟؟ ملازمین نے یہ اضافی پیسے تنخواہوں سے ہی دینے ہیں ۔ اگر آپ یوٹیلیٹی اور اشیائے خورونوش اور ٹیکسوں قیمتیں بڑھا کر حکومت کی آمدن میں اضافہ کرتے ہیں تو پھر ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کرنا ہو گا ورنہ ان کےلئے زندگی مشکل ہو جائے گی ۔

سرکاری ملازمت کو بطور کیرئیر اپنانا ایک قومی خدمت ہے ۔ کوئی ملک سب کچھ پرائیویٹ نہیں رکھ سکتا بلکہ صحت و تعلیم پر سرکاری توجہ کم کرکے اسے پرائیویٹ کرنے کے اثرات سب نے دیکھ لئے ہیں ۔ جو سرکاری محکمے ختم کرکے سہولیات پرائیویٹ کی جاتیں ہیں تو وہ عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہیں ۔ جب سرکاری محکمے چلانے کی ہیں ۔ ملازم رکھنے ہیں تو پھر انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے مناسب معاوضہ بھی دینا پڑے گا۔

سرکاری ملازمین کے لئے آمدن کا ذریعہ تنخواہ ہوتی ہے ۔ ان کے پاس کاروبار و دیگر آمدن کے ذرائع نہیں ہوتے تو حکومت کو چاہیے کہ ایسا یکساں تنخواہوں کا نظام لائے جس سے احساس محرومی جنم نہ لے۔
دوسری صورت یکساں پے سکیل ہیں اور کئی محکموں کی تنخواہوں الاؤنسز مراعات کی تفریق ہے۔

یہ ایک طرح کا طبقاتی نظام ہے۔ اگر اسے ہی ختم کر دیا جائے تو بھی سرکاری تنخواہوں کے اخراجات کنٹرول کئے جا سکتے ہیں۔ یہ کتنا عجیب ہے کہ ایک محکمے کے پاس آفیسرز میس چلانے، گالف کلب ، سپورٹس، دفاتر کو شاہانہ سجانے، ملازمین کی رہائشی کالونیاں عالمی معیار کی بنانے اور دلکش پارک، بڑی گاڑیاں فراہم کرنے کے لیے وافر فنڈز ہوں جبکہ دیگر محکموں کے ملازمین زندگی کی بنیادی ضروریات تک پوری کرنے سے قاصر ہوں ۔ وہ اپنے بچوں کی مناسب تعلیم ۔ میڈیکل اور معمولی رہائش کا انتظام تک نہ کر سکیں ۔

حکومت کا نعرہ ایک پاکستان کا ہے۔ اگر کوئی غور کرنا چاہے تو اس بارے غور کرے کہ کس طرح ملک کے اندر اس بڑی طبقاتی تقسیم اور برہمن و شودر محکموں کے تصور کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی قیادت ۔ میڈیا اور دیگر طبقات کو مسئلے کی نوعیت سمجھ کر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں