لڑکی ایک بزرگ کے ہاتھ پر بوسہ لے رہی ہے

لمحہ فکریہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

افشاں زریں :

آج کل کے بچے بڑے ہونے کو تیار نہیں تو بوڑھے بزرگ کہلوانے سے گریزاں۔ نصف صدی پہلے کی کتب، مکتوب، ماضی کے تفریحی پروگراموں ،ڈراموں ، فلموں اور تاریخی واقعات میں بزرگوں کا کردار پیتالیس پچاس سال کی عمر سے ہی شروع ہو جاتا تھا،

اگر ہم اپنی یاداشت پر زور دیں تو خود ہمارے دادا نانا اور دادی نانی اپنی جوانی جو کہ پینتیس یا زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی عمر ہوتی تھی جب سے ہی بڑھاپے کا لبادہ اوڑھ لیتے تھے، جبکہ فی زمانہ زیادہ تر لوگ اس کہاوت سے متفق ہیں کہ جوانی چالیسویں سال سے ہی شروع ہوتی ہے،

بہرحال کچھ لوگ اپنی عمر کو براہ راست دل کی جوانی سے جوڑ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ بندے کا دل جوان ہو تو وہ جوان ہی ہوتا ہے۔

اپنی جگہ وہ بھی درست فرماتے ہیں، رہی بات رسیدہ عمر کی نشانیوں کی تو آج کے دور میں ہر بگاڑ کا سدھار موجود ہے چاہے سفید اور جھڑتے بال ہوں یا ٹوٹے دانت، کمزور آنکھیں ہوں یا ڈھلتی جلد۔ کاسمیٹک سرجری زندہ باد،
بےبسی تو تب ہوتی ہے جب یاداشت میں خلل اور جسم پر رعشہ آ جائے۔ بہرحال ”امید پر دنیا قائم“ کے مصدق شاید ان کا بھی حل نکل ہی آئے۔

چلیے ایک طرح سے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس طرح آبادی کی اکثریت میں بوڑھے دل والوں کی کمی ہو جاتی ہے لیکن اس طرح یہ معاشرہ کم عمر، صحت مند اور باصلاحیت بزرگوں کی توجہ، محبت اور شفقت سے محروم بھی ہو جاتا ہے بالخصوص بچے کیوں کہ ماضی میں یہی بزرگ ہستیاں اپنے آپ سے زیادہ اپنا وقت، اپنی توانائیاں اور دانائیاں اپنی نئی نسل کی بہترین آبیاری پر صرف کرتے تھے،

بزرگوں میں خاص طور پر دینی اور تاریخی کتب کے مطالعہ کا بھی رجحان تھا اور یہ معلومات وہ کہانی ٹائم میں بچوں کو سناتے رہتے تھے اس طرح سے ان کی بہترین تربیت ہوتی رہتی تھی اسی لئے اس دور کے لوگوں میں اخلاقیات اور ذہانت کا فقدان نہیں تھا۔

اب اکثر عمر رسیدہ افراد اپنا فارغ وقت ڈراموں، یو ٹیوب اور سیر سپاٹے میں لگاتے ہیں۔ کم عمر نظر آنے کی دوڑ میں ڈائٹ پلان اور کاسمیٹک مصنوعات پر بہت زور ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اپنی ذہنی نشوونما پر بھی تھوڑی توجہ دی جائے بالخصوص خواتین اپنے آپ کو اپنی ہی بیٹی کی بہن جیسی دکھنے پر فخر محسوس کرتی ہیں اور اس کے لئے خوب تگ و دو بھی کرتی ہیں۔

مختصراً فی زمانہ اکثریت جب تک بسترِ مرگ پر نہ آ پڑے تب تک دل کو جوان رکھتے ہوئے دنیا کی رنگینیوں میں مگن خود کو جوان گردانتے ہیں۔

اب نئی نسل کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہم کچھ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ پہلے جو ایک سولہ، سترہ سالہ لڑکا ماشااللہ خاصہ سمجھ دار ہوتا تھا، باہر کے معاملات میں والد کا دستِ مدد گار اور نا صرف اپنے مستقبل اور تعلیم کے بارے میں سنجیدہ بلکہ اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت بھی رکھتا تھا اور ان کی پڑھائی میں معاونت بھی کرتا تھا جبکہ اس عمر کی لڑکیاں تعلیم کے ساتھ ساتھ والدہ کی امور خانہ داری میں مدد کرتیں، دیگر طور طریقے اور اٹھنے بیٹھنے، بات کرنے کے سلیقہ سے آشنا بھی ہوتی تھیں۔

جبکہ حالیہ دور میں اکثر خوش حال گھرانے کے انیس بیس سالہ نوجوان ابھی تک نونہال بنے ہوئے ہیں ، ان کے بات کرنے کے انداز سے لے کر ان کی دیگر مصروفیات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ والدین کی ذمےداری تو دور خود اپنی ہی بنیادی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ویڈیو گیمز، انٹرنیٹ، دوستوں کی پارٹیز میں گم یا پھر زیادہ سے زیادہ پڑھائی کا ہلکا پھلکا پریشر، بس انہی سب کے گرد گھومتی ہے ان کی زندگیاں، نا تو انہیں خاطر خواہ اسلام کی تعلیمات کا علم ہے، نا اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقفیت اور نا موجودہ دور کی عالمی سیاست سے لگاؤ۔

ان حالات میں شدت سے محمد بن قاسم کا نام اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ محض سترہ سال کی عمر میں اُنھوں نے اپنی دلیرانہ صلاحیتوں سے سندھ کو فتح کر کہ اپنی حکمتِ عملی سے ایسا نظام نافذ کیا کہ غیر مسلم جوق در جوق حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے اور فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی، الحمدللہ۔

اسی طرح طارق بن زیاد جنھوں نے اسپین کے مسلمانوں کو ظالم عیسائی حکومت سے نجات دلائی، مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ دشمن کے مقابلے میں اپنی فوج کی قلیل تعداد کو لے کر جبل الطارق پر اترے تو جن کشتیوں میں بیٹھ کر آئے تھے وہ سب ساحل پر جلا ڈالیں تاکہ جنگ کے بغیر واپس پلٹنے کا امکان ہی نہ رہے، سبحان اللہ۔۔۔

اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے اس جیسی بے شمار شخصیتوں سے ، چاہےجنگی میدان ہو یا سائنسی ایجادات ، طبی دنیا ہو یا فلکی حسابات مسلمانوں کا نام سرِفہرست نظر آتا ہے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ماضی و حال کی عوامُ الناس کے اطوار میں اِس قدر تغیر کی کیا وجوہات ہیں تو بات صرف اتنی ہے کہ موجودہ لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ اپنے مذہبی عقیدے کے گرویدہ تھے تو اب بیشتر لوگ اغیار کے تمدن کے دلدادہ۔

سوچنا یہ ہے کہ آیا لوگ خود کو صرف دنیا گزارنے کے لئے تلف کرنا چاہتے ہیں یا دنیا کو اپنی آخرت بنانے کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں ، جب تک وہ خود اپنی عاقبت کے لئے فکر مند نہیں ہوں گے تب تک اپنی اولاد کی تربیت و اصلاح پر مخلص بھی نہیں ہوں گے۔

جب ابدی زندگیاں کا انحصار اس فانی زندگی کے اعمال پر ہی ہے تو کیوں نہ اس کا لمحہ لمحہ کشید کر کے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے وقف کیا جائے۔

دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اس محدود زندگی کو نعمتِ عظیم جان کر دائمی زندگی کو سنوارا جائے، خود بھی شعور اور علم حاصل کر کے اپنی نسل تک یہ آگاہی پہنچائی جائے کیوں کہ اس دنیا میں کیا گیا عملِ صالح ہی جنت کا ضامن ہے اور نیک اولاد صدقہ جاریہ جو کہ مرنے کے بعد بھی اعمال میں اضافے کا باعث بنتی ہے ، انشاءاللہ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں