ھنادی ایمان، کالم نگار، بلاگر

یوٹرن کتنے قسم کے ہوتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ھنادی ایمان

نااہل لوگ بالکل ایسے ہی فیصلے اور بیانات بدلتے ہیں ، یہ نا اہلوں کی خاص نشانی ہے ۔ وقت اور اپنی ضرورت بدلتی دیکھ کر فوراً بدلنے میں دیر نہیں کرتے ، جیسے اب عدالت نے ایک سزا یافتہ فرد کے بارے میں اپنی ہی عدالتوں کے ثابت شدہ اور طے شدہ فیصلے کو رد کر دیا۔ اور سزائے موت کی کوٹھڑی سے نکال کر اچانک رہائی کا فیصلہ دے دیا۔ ان حرکتوں کو عام پبلک یو – ٹرن بھی بولتی ہے۔
یہ یو ٹرن والا کام ہمارے ملک میں کثرت سے کیا جاتا ہے، اور اونچے اونچے عہدوں پر ہمیشہ ماسٹر آف یو ٹرن ہی لا لا کے بٹھائے جاتے ہیں، ان یو ۔ ٹرن صلاحیت رکھنے والے لوگوں میں اسانی سے خریدے اور بیچے جانے کی ، بِک جانے اور جھک جانے کی صلاحیت بھی بدرجہ اُتم دیکھی اور پائی جاتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ قوم تین طرح کے یو ۔ ٹرن سے زیادہ متاثر رہی ہے ۔ کبھی عدالتی یو-ٹرن، کبھی فوجی یوٹرن، کبھی وزیر اعظم کا یو ٹرن۔
کم و بیش یہی کیفیت اس ملک کے ہر ادارے کے سربراہ کی ہے ۔
چشم بددور۔۔ آج کل کے وزیر اعظم بھی انہی کیفیات سے دوچار رہتے ہیں۔
ان وزیراعظم صاحب سے اور تو کچھ بدلا نہ گیا ،
بے چارہ جب سے حکومت میں آیا ہے صرف اپنے بیانات ہی بدلے جا رہا، الیکشن سے پہلے اس نے مختلف موضوعات پر کچھ اور بیانات دئیے الیکشن کے بعد اتنے بیان بدلے اور اتنی باتوں سے مُکر گیا اتنا پِھر گیا کہ بالکل 180 اینگل پر۔ حالات اب یہ ہیں کہ اب لوگ اس ملک کے وزیر اعظم کو "مسٹر یو۔ ٹرن ” بولتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف ان دو اداروں کے ساتھ نہیں، تیسرے ادارے بھی نا اہلی اور یو ٹرن کے ماسٹر ہیں۔ ان کی بہت بڑے بڑے ، عالمی سطح کے بہت معروف و مشہور یو ٹرنز موجود ہیں، ان میں ایک غیر ملک کی صرف ایک کال پر ڈھیر ہونے والے شیر دلیر کا عظیم یو- ٹرن ، اس تیسرے ادارے نے تو کشمیر پر یو ٹرن لینے والے، با کمال ، بڑے بڑے عظیم الشان جرنیل بنا بنا کر” ٹریننگ” دے دے کر انہوں نے اس قوم کو دئیے۔ واہ واہ واہ کیجئیے۔۔ ان اداروں نے ایسے ایسے عظیم سپوت اس قوم کو دئیےجو اپنی تحریروں میں ، خود اقرار کرتے رہے کہ ہم نے بیچی قوم کی بیٹی چند ٹکوں کے عوض۔ عش عش کیجئیے جناب عش عش نہ کریں تو ہم اور کیا کریں۔ ؟؟ جو کہتے اور ثابت کرتے ہیں کہ ہم نے نبھائی ہیں وفائیں نیٹو سے ، ہم نے حوالے کئیے اپنے لوگ دوسرے غیر ملکوں کے۔ اس سے بھی بڑھ کر کئی ایسے گزرے جن کی عیاشی کے قصے چہار سو زبان زد عام ہیں۔
یہ جو کتوں سے بڑھ کر دوسروں سے وفاداریاں نبھاتے ہیں ان کی اپنے ملک میں پھر ایسی ہی عزت ہوتی ہے ، اور یہ سب ادارے اپنی پبلک کے عدالتی اور قانونی ضابطہ مکمل کرنے کے جائز مطالبے پر ان لوگوں پر گولیاں چلو اتے ہیں۔ احتجاج سے روکتے ہیں، کبھی لاٹھی ، کبھی دھونس دھمکی سے کبھی میڈیا پر ان کی آواز کا بلیک آؤٹ کرواتے ہیں،
آخر یہ لوگ کس منہ سے خود کو اہل سمجھتے ، یہ کس منہ سے لوگوں کو قانون کی پاسداری اور حکومتی اداروں کی بات ماننے کو کہتے ہیں۔ یہ کس منہ سے ملک چلانے کی بات کرتے ہیں، جو اکثریت کے مفادات کا تحفظ نہیں کر پائے آج تک وہ اقلیت کے حقوق کی بات کس منہ سے کرتے ہیں؟؟ بس جو جتنا بڑا بکاؤ اور ڈیلر اور فراڈیا ہے وہ اتنا اوپر لا لا کر لوگوں کے سروں پر بٹھا بٹھا کر ، اپنے یو۔ ٹرن اور اپنی ادائیں دکھاتا ہے ۔ آخر یہ لوگ کس منہ سے خود کو محب وطن کہتے ہیں، کس منہ سے یہ خود کو ایماندار اور عوام کا مخلص اور ہمدرد کہتے ہیں ۔بے ضمیری کی انتہا ہے ۔بے شرمی اور بے حیائی اور کس کو بولتے ہیں؟؟؟
آخر بہت معزرت کے ساتھ بتانا یہ تھا کہ یہ لفظ
یو۔ٹرن بہت ہلکا استعمال کیا ہے ورنہ اردو لغت میں اس کے لئیے بہت وسیع الفاظ کا زخیرہ موجود ہے جن میں چھوٹے سے چھوٹا لفظ منافقت ، ضمیر فروشی سے لے کر بڑے سے بڑا street language کا لفظ بھی موجود ہے۔
شکریہ ۔۔!!
پاکستان زندہ باد
مظلوم ، محکوم اور محروم سڑکوں پہ رُلتے لوگ پائندہ باد


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں