بیٹی نے باپ کا ہاتھ تھام رکھا ہے

وہ مہربان ( فادرز ڈے کی مناسب سے )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریدہ یوسفی کے قلم سے

”پتہ ہے باجی! جب بیٹی کے سر پر باپ کا سایہ نہیں رہتا نا توکیا ہوتا ہے!!!!
وہ ہر مہربان کی شبیہہ میں اپنے باپ کو تلاش کرنے لگ جاتی ہے۔
ہر شفقت بھرا چہرا اسے باپ لگتا ہے۔
ہر پیار بھری نظر میں وہ اپنے باپ کی محبت تلاش کرتی ہے۔“

زرمین نظریں فرش پر گاڑے بہتے ہوئے آنسوؤں کی رندھی آواز میں بولے جارہی تھی۔

”باجی! باپ کی نظر اس کی محبت،اس کی گود، اس کے لاڈ، اس جیسی محبت کوئی نہیں کرسکتا۔
باپ جیسی شفقت کوئی نہیں دے سکتا۔“

”اچھا چلو! یہ دودھ پیو شاباش!! ہلدی والے دودھ سے جلدی ٹھیک ہوجاؤگی“

اس کے جسم پر جا بجا شوہر کی مارپیٹ کے زخموں کے نشان تھے۔

”باجی! یہ زخم تو ٹھیک ہوجائیں گے، جو روح اور دل کے گھاؤ ہیں وہ نہیں ٹھیک ہوں گے۔ وہ مجھے چوبیس گھنٹے اذیت دیتے ہیں۔“

”میں اپنے باپ کی لاڈلی تھی، جب تک وہ زندہ رہے مجھے شہزادی بناکر رکھا، میری ماں کو زندگی کی ہر سہولت گھر کے دروازے پر ملتی تھی۔ امی کو کبھی پیدل نہ چلنے دیتے۔ میری بہن انتہائی بیوقوف اور بدتمیز تھی، میرے ابو نے کبھی ان کو ہلکا سا بھی نہیں مارا۔ امی کہا کرتیں کہ ابو نے اسے لاڈ دے رکھا ہے نہ خود کچھ کہتے ہیں نہ مجھے کہنے دیتے ہیں۔ ایک بار بھائی نے بہن کی بدتمیزی پر اسے ہلکا سا مارا اور ابو نے اکلوتے بھائی کی ہی پٹائی کردی کہ بہن پر ہاتھ کیسے اٹھایا۔“

زرمین بولے جارہی تھی۔ میں اسے سن رہی تھی کہ اس وقت زرمین کو سننا ہی اس کے زخموں کا مداوا تھا۔

”زرمین! تم بھائی کو کیوں نہیں بتاتی ہو؟“ ”
”باجی سب کے اپنے اپنے گھر ہیں، دکھ بتاؤ تو جو سال میں دو تین بار بھائی گھر آجاتا ہے تو وہ بھی نہیں آئے گا۔ دوسری بہن کو عادت ہے وہ رونے دھونے ڈالے رکھتی ہے تو بھابھی نے اس کا گھر میں داخلہ ہی بند کردیا ہے۔ نہ بھائی اس کے گھر جاتے ہیں نہ وہ بھائی کے۔“

”باپ کے بعد میکہ بھی کہاں رہتا ہے باجی! مجبور بیوہ ماں، بھائی کے اپنے بال بچے، مصروفیات۔ ہنسی خوشی ملنے ملانے جاؤ تو ہی ویلکم ہوتا ہے، مشکل پریشانی بتاتے رہو تو جو تھوڑا بہت علیک سلیک ہے وہ بھی نہ رہے گی۔“

زرمین نے اب صوفے سے ٹیک لگا لی تھی۔

”مجھے یاد ہے ایک بار بھابھی کے کزن نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی۔ بھائی کو بتایا تو بھائی نے الٹا مجھے ہی ڈانٹ دیا کہ ضرور تم نے کوئی حرکت کی ہوگی ورنہ وہ کیوں ایسے کرتا۔
اور پابندیاں مجھ پر لگ گئی تھیں۔“

”چھ بہن بھائیوں میں ساس کو اپنے سب سے بھولے اور ملنگ مزاج بیٹے کے لئے کوئی مسکین سی لڑکی چاہئے تھی اور بھائی نے اپنے سر سے بوجھ اتارنا تھا۔
باپ کی طرح کون سوچتا ہے باجی!

پڑھے لکھے جاہل کیسے ہوتے ہیں، کوئی مجھ سے پوچھے۔ نہ کمانے کی فکر نہ خرچوں کی فکر۔ کوئی ضرورت بتاؤ ، کوئی چیز بچوں کو چاہئے ہو تو، پیسے دو ، کوئی بیماری ہو، کوئی آنا جانا ہو تو پیسے دو۔“

”کمانا کس کا کام ہوتا ہے باجی! بیوی بچوں کے خرچے پورے کس نے کرنے ہوتے ہیں!! مرد اچھا لگتا ہے بیوی سے مانگتے؟؟؟ میرا زیور میری بچت۔۔گھر کا سامان کچھ نہیں چھوڑا۔“

زرمین پہلی بار میرے پاس نہیں آئی تھی کئی سال پہلے محلے کی ایک بزرگ خاتون نے بیٹی کی پیدائش پر اسے میرے پاس چھوٹے موٹے کام لینے دینے بھیجا تھا، وہ تب سے آتی جاتی۔ ہمیشہ اس کا سوبر سا انداز دیکھ کر لگتا کہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ بغیر کام کے کبھی کچھ رقم نہیں پکڑتی تھی۔

کام لینے اور دینے کی پابند، وقت پر لے جانا وقت پر دے جانا۔ اتنے برسوں میں شناسائی اتنی تو ہوگئی تھی اس کی اداسی مجھ سے چھپی نہ رہتی اور وہ جب کبھی بہت بوجھل ہوتی تو مجھ سے اپنے دکھ شئیر کرلیتی تھی۔ اس کے بعد ایسے ہوجاتی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ رودھو کر اپنے غموں کا بوجھ اتار کر جب وہ ہشاش بشاش ہوجاتی تب مجھے سکون ملتا کہ میں اسکے لئے یہی کرسکتی تھی۔

وہ کچھ مخصوص گھروں میں جاکر کام لیتی، کبھی سلائی کا کام ، کبھی رضائیاں بنانا، کبھی استری کے لئے کپڑے لانا، اسی طرح لنچ باکس بنانے، پہنچانے کا کام بھی کرتی تھی۔

وہ بولے جارہی تھی: ”گھر گھر کام کرو، کبھی گھر میں کسی فیکٹری کا کام کرو، کبھی سلائی کڑھائی، کبھی بچوں کو ٹیوشن والے بچے لگواکر دوچار پیسے کماؤ ۔ کیسے کیسے بچوں کو پڑھاؤ ان کی ضرورتیں پوری کرو۔“

”باجی! ہوس زدہ معاشرے سے اپنی عزت بچا کر یہ سب کرنا آسان نہیں
شوہر جسے کما کر ہمیں کھلانا تھا، ہم اسے کما کر کھلاتے ہیں۔
پھرساس، سسر، نند اور سسرالیوں کے طعنے مطالبے، جو بچہ ذرا سمجھ دار فرمانبردار لگتا ہے اسے ہتھیانے کو دوڑتے ہیں۔ جیٹھ کی ایک بیٹی ہے، کہتا ہے یہ تیرا بیٹا بڑا سیانا ہے اسے مجھے دیدے۔
کیسے دے دوں باجی؟ میرے چھوٹے بچوں کا کیا ہوگا ، اتنی مشکل اسے پڑھایا ہے۔ ساتھ لگ کر کماتا ہے۔“
زرمین کے آنسو پھر سے بھل بھل گرنے لگے۔

”زرمین! دین میں جبر نہیں ہے، تم شوہر سے طلاق لےلو، اب بھی تو گھر کا کرایہ دیتی ہو، طلاق لو، بچوں کے ساتھ سکون سے رہو۔“

”نہیں باجی ! “ زرمین نے آنکھیں میچ لیں
اور میں حیران نہیں تھی، کیوں کہ یہ مشورہ میں اسے کئی بار دے چکی تھی۔ اور وہ میری اس بات پر ہنس کر خاموش ہوجاتی۔

”باجی! جیسا بھی ہے، اس کے ہونے سے چار، چھ ہوس زدہ شیطان مجھ تک پہنچنے میں ناکام ہیں۔ یہ نہ رہا سامنے تو نوچ کھائیں گے“
آج پہلی بار زرمین ایسی بات کی کہ میں چونک کر رہ گئی۔

”میں کون سا کم ہوں جب وہ لڑتا ہے تو بدلہ میں بھی پورا لے لیتی ہوں، بچے سو جائیں یا ادھر ادھر ہوں تو ایسے کو تیسا کرتی ہوں۔ کبھی گھر سے بھی نکل جاتی ہوں، ابھی جیسے آپ کے پاس آگئی۔
باجی وہ جیسا بھی ہے کما کر دیتی ہوں تو تھوڑی بہت قدر تو کرلیتا ہے، ابھی دیکھنا ،آج مارا ہے دو دن بعد معافی مانگے گا، چائے بناکر پلائے گا۔ ابھی تلاش کررہا ہوگا مجھے۔ یہ دیکھیں اس کی مس کالیں،“ زرمین نے اپنا کالا سیٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا۔

”یہ مارپیٹ گالم گلوچ بھی میں برداشت کرلوں لیکن باجی!
ساری عمر یتیمی کاٹی ہے، میں زندگی میں اپنے بچوں کا باپ ان کے سر سے نہیں کھینچ سکتی۔
میں جانتی ہوں باپ سر پر نہ ہو تو بیٹے کیسے ماں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔
مجھے پتہ ہے کہ بن باپ کے بیٹیوں کو لوگ گھاس پھونس سمجھتے ہیں۔
جیسا بھی ہے میرے بچوں کا باپ ہے۔ کیا ہوا جو مجھے اذیت دیتا ہے۔
بیٹیوں کو اسکول کالج لانے لے جانے اسے پٹرول کے پیسے میں دیتی ہوں، پر جیسے باپ تحفظ سے انہیں لاتا لے جاتا ہے، کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔
کیا ہوا جو میں بیٹے کی یونیورسٹی کی فیس دیتی ہوں۔ بیٹے کے دوستوں پر جو نظر باپ رکھ سکتا وہ میں نہیں رکھ سکتی۔

میری بیٹیاں باپ سے لاڈ اٹھواتی ہیں، بیٹے بیٹھ کر باپ سے باتیں کرتے ہیں۔
بیمار ہوجائے کوئی تو چاہے ڈاکٹر کی فیسیں میں دوں، لانا لے جانا بھاگ دوڑ انہی کا باپ کرتا ہے۔
جیٹھ نے اکلوتی بیٹی کے لئے بیٹا مانگا تو یہی باپ تھا جو ڈھال بنا،

یتیمی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ جب میں اپنے مہربان باپ کی محبت شفقت اور سرپرستی سے محروم رہی۔
جانتے بوجھتے اپنے بچوں کو اس عذاب میں نہیں جھونک سکتی، ۔مجھے پتہ ہے باپ کا سایہ نہ ہو تو لوگ بوٹیاں نوچ کر کھا جاتے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں