سیدمنورحسن، سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

بڑا غم، علماء کا رخصت ہونا نہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ:

وہ موت ہی کیا جس پر آپ پرسے کے لیے نہ جا سکیں اور وہ پرسہ ہی کیا جو بے جان سکرین پر دو لفظ گھسیٹ دیے اور برقی لہروں کے سپرد کردیا۔

موت، میت اور پرسہ کے لفظ کے ساتھ ہی دل کا غم سے بھر جانا، میت کے گھر والوں کو گلے لگانا، آنسو بہانا شامل ہے۔

کچھ فوتگیوں پر یہ سب کچھ کر کے بھی دل کا بوجھ اور غم ہلکا نہیں ہوتا۔ جتنا مرضی روئیں، گلے لگائیں مگر دکھ بڑھتا چلا جاتا یے اس لیے کہ وہ ایک فرد یا ایک خاندان کا نہیں ایک برادری یا قبیلے کا نہیں پوری قوم اور پوری امت مسلمہ کا نقصان ہوتا ہے ۔۔اور یہ وہ نقصان ہے جس کا خلاء کبھی پر نہیں ہوسکتا۔

کوئی کرکٹر، کھلاڑی یا فن کار مرجائے تو افسوس تو اس کا بھی ہوتا ہے مگر وہ صدمہ اس کے جانے کا ہوتا ہے، اس کے جانے کے بعد اس سے اچھا کھلاڑی یا فنکار وغیرہ آسکتا ہے۔

طاہرہ نقوی کا انتقال ہوا، خالدہ ریاست دنیا سے گئی، بڑے ایوارڈ ان کے نام پر تھے مگر کیا ان کے بعد اداکاری یا فن کاری کے دروازے بند ہوئے؟ اچھے سےاچھے اداکار اس کے بعد آئے ۔ بلاشبہ وہ بھی ایک عظیم نقصان تھا مگر شخصی۔

ایک موت اور نقصان ایسا ہے جس کا خلاء کبھی پُر ہوسکتا ہے نہ اس کا نعم البدل مل سکتا ہے اور وہ ہے عالم کا جانا ایسے ہی تو ضرب المثل نہیں بن گئی
موت العالم موت العالم

یعنی ایک عالم کی موت ایک جہان کی موت ہوتی ہے جیسا کہ کل سید منور حسن صاحب، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان رخصت ہوئے، ان سے پہلے بھی ان چالیس پچاس دنوں میں ایک لمبی قطار ہے ایسےلوگوں کی۔

بنوری ٹاون کے مفتی نعیم صاحب، مولانا عزیز الرحمان ہزاروی، مولانا عبدالرحمان لدھیانوی سمیت کوئی ستر ایک نام ہیں۔ ہر نام اپنی جگہ پر ایک علم کا سمندر ہے۔ یہ سب کسی ایک جگہ یا فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے، ان میں فقہ جعفریہ کے طالب جوہری بھی تھے، اہل حدیث، سنی، بریلوی سب مکاتب فکر سے ان کا تعلق تھا۔

یہ سانحات صرف پاکستان میں نہیں ہوئے، پورے عالم اسلامی میں علماء کے جانے کی یہی رفتار ہے۔ ایک حدیث تو سن رکھی تھی کہ قیامت سے پہلے ناگہانی اور بکثرت اموات ہوں گی۔ ایک کی خبر ملتی ہے تو ساتھ ہی دو چار خبریں مزید مل جاتی ہیں اور الله کی مرضی یہ ہے کہ وائرس کی وجہ سے کہیں جانا ممکن ہے نہ پرسہ دینا۔

جب آپ صف میں‌ نہ بیٹھے ہوں، مرنے والے کا منہ نہ دیکھا ہو تو سوگ بھی ادھر ادھر منتقل ہوجاتا ہے۔ جانے والے کی یاد میں چند آنسو بہالیے اور موبائل کی سکرین پر چند لفظ ٹائپ کرکے فارورڈ کئے۔ یہ ہے تعزیت لیکن سید منور حسن مرحوم کی رخصتی سے کیفیت بالکل بدل گئی ہے۔

وہ حدیث جو دن میں پتہ نہیں کتنی بات آپ کی نظروں سے بھی گزرتی ہوگی، میں بھی سے روز پڑھتی ہوں۔ اب ایک نئے سیاق و سباق کے ساتھ میرے سامنے ہے۔

ہر عالم کے جانے پر بہ حیثیت مسلمان صدمہ ہوتا تھا اور یہی حدیث یاد آتی رہتی تھی کہ قیامت کے قریب نیک لوگ تیزی سے رخصت ہوں گے،علم کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا اور یہ علم ختم ہونا نہیں عالموں کا روئے زمین سے اٹھایا جانا ہوگا۔ اور جب یہ عالم اٹھ جائیں گے تو کچرا یا کھجور کا گھاس پھونس رہ جائے گا۔

یہاں تک تو حالات پہنچتے نظر آرہے ہیں اور زمین کا بوریا بستر گول ہوتا بھی نظر آرہا ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ قیامت کا آنا اللہ کی نافرمانیاں عروج پر ہونے، دجالی چال چلن، مادہ پرستی کے عروج کے بعد ہوگا۔

اور قیامت کا وقوع پزیر ہونا اور پھر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت کے بعد کے مراحل خدا کے حضور پیشی نامہ اعمال وغیرہ یہ سب بہت ہولناک ہیں۔ ہر نیک انسان اور عالم کی رخصتی قیامت کا مزید قرب ہے مگر اس حدیث کا باقی حصہ تو ان سب سے بڑھ کے ہولناک ہے۔ اور حقیقت میں اس کا ادراک بھی کل منور حسن کی رخصتی کے بعد ہوا کہ قیامت سے پہلے وہ دور جب بندہ صبح کو مومن ہوگا شام کو کافر اور شام کو حالت ایمان میں ہوگا تو صبح کو کافر، یہ کیسے ہوگا۔

یہ حدیث کا باقی حصہ پڑھیے
جب یہ نیک لوگ اور عالم گزر جائیں گے تو ان پر جاہل علماء مسلط ہوں گے جو اپنے فتووں سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

کل سے یہ بات مجھے بہت خوف زدہ کر رہی ہے۔ وہ وقت کب بندہ گناہ کو ثواب سمجھ کے کرے گا، شراب، زنا موسیقی کو نام بدل کے جائز کردیا جائے گا۔ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب نیم حکیم کی طرح جاہل مولوی اصل عالم کی جگہ پر آجائیں گے اور ایمان کا راستہ گم ہوجائے گا۔

لیکن حالات و واقعات سے اس کی پوری تسلی کروائی جاتی رہے گی کہ یہی عالم سب سے بڑا ہے اور جو فتویٰ اس نے دیا اس سے اچھا فتویٰ ممکن ہی نہ تھا۔ وہ دین کا جتنا اور جیسے چاہے حلیہ بگاڑ دے گا وہ جس طرح چاہے انسان کو راہنمائی کے نام پر گمراہ کرتا پھرے مگر قائد اعظم کی سربراہی دیکھنے والے اس ملک میں کس کس طرح کی حکمرانی کے انداز دیکھ چکے ہیں۔ حدیث کا دوسرا مرحلہ زیادہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے جو عالم اور نیک لوگ رخصت ہو گئے وہ تو اللہ کی میزبانی میں ہیں۔ ان کا تو استقبال ہی سلام قول من رب الرحیم سے ہوا ہوگا۔ وہ تو زمین کی منافقت سے نجات پاگئے، مسئلہ تو جاہلوں کی پیروی ہے۔
مرحلہ تو جاہل مولویوں سے ایمان کو بچانا ہے۔

مگر لمحہ فکریہ یہی ہے، اگر نیک لوگ جارہے ہیں۔ اگر پے در پے علمائے کرام رخصت ہورہے ہیں تو پھر تیار رہئے۔ اب جاہل مولویوں کی باری ہے۔ ان گمراہ کرنے والی علماء کا دور دورہ ہوگا جو لوگوں کو ان کے ذوق کے مطابق فتوے دیا کریں گے۔

کسی بھی سچے مسلمان کے لیے یہ وقت موت سے بدتر ہے۔ جان تو جانی ہے، آج نہیں تو کل، مسئلہ تو ایمان بچانے کا ہے جس کے لیے واحد حل غاروں میں ہجرت ہوگی۔ ایسے میں بس اللہ سے دعا مانگیے، فریاد کیجئے، ایسا وقت آنے سے پہلے اللہ ہمیں اپنے پاس حالت ایمان میں بلالے اور جاہل علماء سے واسطہ نہ پڑے۔

اور اپنا ذہن گمراہ ہونے سے بچ جائے۔ اپنے اللہ سے ایسے وقت سے پناہ کی دعا، اللہ کی مدد اور دین پر استقامت کی دعا، سب سےپسندیدہ دعا ہوگی۔
اللہ ہم سب کو سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کا طلب گار بنائے اور ایمان کو دنیا و ما فیہا سے محبوب کردے۔ آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں